سیﺅل(مانیٹرنگ ڈیسک) شام، عراق، افغانستان اور یمن جیسے ممالک سے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد یورپی ممالک کا رخ کر رہی ہے اور کئی یورپی ممالک میں ان کی آمد کے خلاف احتجاج کیا جا چکا ہے اور ان پر دروازے بند کیے جا چکے ہیں۔ اب جنوبی کوریا بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ وائس آف یورپ کے مطابق گزشتہ دنوں جنوبی کوریا کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر یمن و دیگر ممالک سے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد کے خلاف احتجاج کیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ مسلمان پناہ گزین ہمارے ملک میں آئے۔“
رپورٹ کے مطابق ان مظاہرین نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ان پر ”آﺅ جعلی پناہ گزینوں کو دھکے دے کر باہر نکالیں“ جیسے نعرے لکھے ہوئے تھے۔یہ مظاہرے دارالحکومت سیﺅل سمیت جنوبی کوریا کے کئی شہروں میں کیے گئے۔ نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے مظاہرین میں سے ینگ ایون اوکے کا ایک شخص کا کہنا تھا کہ ”شروع سے ہی ان لوگوں(مسلمانوں)کو سکھایا جاتا ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی غلاموں جیسا سلوک کرنا ہے اور انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ہے۔ وہ کئی کئی بیویاں رکھ سکتے ہیں اور متعدد بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ اس وقت جنوبی کوریا میں 500پناہ گزین ہیں، اگلے 10سے 20سالوں میں یہ کتنے ہو جائیں گے؟ چنانچہ ہم ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں نہیں دیکھنا چاہتے۔“