اسلام آباد ہائیکورٹ نوازشریف کی سزا معطلی پر فیصلہ کب سنائے گا ؟ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کر دیا

0
721

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر نیب پراسیکیوٹر کے شریف فیملی کی سزا معطلی پر دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو کل فیصلہ سنا دیا جائے گا۔عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب پانامہ 2 فیصلہ آیا تو وہ تمام ججز پر بائینڈنگ تھا اور پہلا فیصلہ بائنڈنگ نہیں قرار دیا جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا پانامہ پر دوسرا فیصلہ تسلسل ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پانامہ 2 کو تمام ججز نے دستخط کیے، جسٹس میاں گل حسن نے کہا پہلے فیصلے میں نااہلی نہیں ہوئی اور وہ فیصلہ منارٹی ججز کا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا یہ معمولی کیس نہیں، پیسے لیے اور جیب میں ڈالنے سے متعلق کیس نہیں بلکہ لاتعداد کمپنیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔اکرم قریشی نے کہا کہ اس کیس کو اتنے مختصر وقت میں تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اس مرحلے پر عدالت کا کوئی بھی تبصرہ مناسب نہیں ہوگا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت اچھی بات کہی آپ نے۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، لندن اپارٹمنٹس کا قبضہ بچوں کے پاس تھا، باپ بچوں کا نیچرل سرپرست ہے جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا والد اور سرپرست ہونے کی وجہ سے بار ثبوت ان پر ہے اور یہ کہتے ہیں حسن اور حسین ہی بتا سکتے ہیں، اخراجات ریکارڈر پر نہیں ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیاءنے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here