وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے نیا پاکستان بنانے کے لئے جو وعدے عوام سے کئے تھے ان میں سب سے زیادہ پر اثر اور اہمیت کا حامل جو نعرہ تھا وہ کرپشن کے خلاف جنگ کا تھا اور عمران خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کریں گے. چونکہ کرپشن ایک ایسی بیماری اور لعنت ہے جس سے ہر امیر غریب کو پریشانی ہوتی ہے لہذا قوم نے عمران خان صاحب کے وعدے اور مستقل مزاجی پر بھروسہ کرتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور یوں خان صاحب 22 برس کی طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے. لیکن کیا عمران خان صاحب دیگر وعدوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کا وعدہ پورا کر سکیں گے؟ بظاہر تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتااگرچہ ان کی حکومت کو ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں اور ابھی سے ایسی امیدیں یا مطالبے کرنے کا جواز نہیں لیکن چند زمینی حقائق ایسے ہیں جن سے ایک عام آدمی ضرور متفق ہوگا.
کرپشن کے خاتمے کے لئے نیشنل اکاؤنٹیبیلٹی بیورو یا نیب اس وقت بہت ایکٹو ہے اور بڑے پیمانے پر انتہائی اعلی عہدوں پر فائز افراد کی انکوائریاں اور گرفتاریاں ہورہیہیں. نیب کا سب سے بڑا نشانہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بنے اور اب ان کے بھائی شہباز شریف بھی نیب کی گرفت میں ہیں. اسی طرح پیپلز پارٹی کے اعلی عہدے داروں کے گرد بھی گھیرا تنگ ہے. اس کے ساتھ ساتھ چند بڑی ہاؤسنگ سکیموں کے مالکان کے خلاف بھی نیب کی انکوائریاں چل رہی ہیں. یہ سب ٹھیک ہے اور ان بڑے مگرمچھوں کو پکڑنا ضروری ہے لیکن کیا ایک عام آدمی کو بھی نیب سے کوئی دادرسی مل سکتی ہے یا کسی بڑے سیاسی آدمی کی گرفتاری سے کسی عام آدمی کا بھلا ہو سکتا ہے؟
نیب کا فعال کردار ایک عام آدمی کو بہت متاثر کرتا ہے لیکن یہ کسی عام آدمی کے لئے کچھ بھی فائدہ مند نہیں کیونکہ نیب نہ تو کسی انفرادی سطح پر ہونے والی کرپشن پر کسی کی مدد کرسکتا ہے نہ ہی کسی غیر سکاری سطح پر ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتا ہے، سو نیب کے ایکٹو ہونے سے کسی عام آدمی کو فی الحال کوئی فائدہ نظر نہیں آتا جب تک کہ نیب قوانین میں ایسی کوئی اصلاحات کی جائیں.
کرپشن کے خاتمے کے لئے نیب کے بعد اینٹی کرپشن کا محکمہ نظر آتا ہے لیکن اس کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہ صرف سرکاری عہدیداروں کی کرپشن پر ہی کارووائی کرتا ہے جبکہ عام زندگی میں بے شمار لوگ غیر سرکاری افراد کی کرپشن کا شکار ہوجاتے ہیں.
کرپشن کے خاتمے کے لئے ایف آئی اے بھی سرگرم عمل ہے اور پولیس بھی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی حکومت بننے کے بعد سے اب تک کسی بھی سطح پر فی الوقت نہ تو کوئی تھانہ کلچر تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی ایف آئی اے تک رسائی آسان ہوئی ہے. آج بھی آپ کسی بھی تھانے میں چلے جائیں یا کسی کچہری میں ہر جگہ ہر وہی رشوت ستانی اور بد عنوانی کا راج ہے. نیب کے ہاتھوں وزیروں اور مشیروں کی گرفتاریاں میڈیا پر بہت خوش آئیند نظر آتی ہیں لیکن یہ کسی عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ ایک عام آدمی کو تھانے، کچہری اور پٹواریوں کی کرپشن سے نجات نہ ملے. اور اس سطح پر دیکھیں تو فی الوقت جو کچھ پرانے پاکستان میں ہو رہا تھا وہی کچھ نئے پاکستان میں حسب معمول چل رہا ھے. اس صورتحال پر سلیم کوثر کی ایک غزل یاد آرہی ہے:
چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا
کیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا
[…] علاقہ تھانہ گگو شیخ فاضل روڈ کواٹر 373 ای بی روڈ حادثہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ”نواز شریف بہت غصے میں تھے اور شہباز شریف پر چیخے […]
[…] علاقہ تھانہ گگو شیخ فاضل روڈ کواٹر 373 ای بی روڈ حادثہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ”نواز شریف بہت غصے میں تھے اور شہباز شریف پر چیخے […]
[…] کرچیاں بن کر اس کو لہولہان کردیتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:کچھ بھی نہیں بدلا، نیاز اے شاکر کا اردو کالم ریحانہ کی ملاقات قیصر شہزاد سے ایک کمپیوٹر لیب میں […]