اپنی اناؤں کے اسیر

0
833
harfe-niaz-profile-pic of Niaz A Shakir

ہم اس وقت بھی دو انتہاؤں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ ایک طرف ایسی سوسائٹی ہے جو میرا جسم میری مرضی تک پہنچ چکی ہے اور اب کوئی بھی می ٹو کا ہیش ٹیگ استعمال کرکے کسی پر بھی ایسا الزام لگا دے جو آج سے دس بیس سال پہلے کا واقع ہو تو بھی جان چھڑانی اور عزت بچانی مشکل ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک خداداد میں ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں کوئی لڑکی اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کرسکتی اور اگر کر لے تو یہ نہ صرف اس کے ماں باپ کی بلکہ اس کے چچاؤں تاؤں، پھوپھیوں ماسیوں تک کی انا کا مسلہ بن جاتا ہے اور پھر سارا خاندان مل کر بجائے اپنی عزت بچانے کے سرعام اپنی ہی لڑکی کے جرم کو پنچایتوں میں گھسیٹتے ہیں اور اس لڑکی کو نشانہ عبرت بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کوئی اور لڑکی میرا جسم میری مرضی تو دور کی بات میری شادی میری زندگی کے بارے میں بھی نہ سوچ سکے۔
ریحانہ (فرضی نام) کی کہانی بھی ایسی سینکڑوں کہانیوں جیسی ہے جس میں ایک نوجوان لڑکی ایک پسماندہ معاشرے میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی ہے اور جب یہ تعلیم اس کو یہ شعور عطا کرتی ہے کہ ہر انسان کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور اسلام میں جبری شادی منع ہے تو وہ اپنی آنکھوں میں ایک سہانی زندگی گزارنے کے خواب سجا کے اپنی مرضی کے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے کی تمنا کرتی ہے۔ اور پھر یہی خواب اس کی آنکھوں میں شیشے کی کرچیاں بن کر اس کو لہولہان کردیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:‌کچھ بھی نہیں بدلا، نیاز اے شاکر کا اردو کالم
ریحانہ کی ملاقات قیصر شہزاد سے ایک کمپیوٹر لیب میں ہوئی جہاں وہ ایک کمپیوٹر کورس کے لئے گئی تھی۔ قیصر شادی شدہ اور ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور ایک آسودہ زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے برعکس ریحانہ ایک متوسط اور مختصر سی فیملی سے تعلق رکھتی تھی جو کہ ایک بھائی اور شادی شدہ بہن اور بوڑھے والدین پر مشتمل تھا۔ بڑی بہن اپنے گھر میں آسودہ تھی اور ریحانہ اور اس کا بھائی اپنے گھر میں اپنی اپنی دنیا میں مگن۔ ٹیچرز ویسے بھی اپنے سٹوڈنٹس کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں اور قیصر تو ایک آئیڈیل ٹائپ زندگی گزار رہا تھا جس میں دولت بھی تھی، بیوی سے پیار بھی اور معاشرے میں اچھا مقام بھی ۔ کسی بھی لڑکی کے لئے یہ ایک آئیڈیل ماحول ہوتا ہے اور ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ ایسا پیار کرنے والا شوہر ہو، ایک پرسکون پیارا سا گھر ہو اور سوسائٹی میں اعلی مقام ہو۔ سو ریحانہ فطری طور پر قیصر سے متاثر ہوگئی جس کو قیصر نے بھی محسوس کیا اور وہ بھی ریحانہ کی طرف مائل ہونے لگا۔ یوں آہستہ آہستہ دونوں ہی ایک دوسرے کے قریب آتے گئے اور بالآخر دونوں نے تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اقرار کرلیا۔
کسی بھی بیس بائیس سال کی نوجوان اور خوبصورت لڑکی کی لئے اپنے گھر والوں یا اپنی دوستوں کو اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایک پچاس سال کے شادی شدہ شخص سے محبت کرتی ہے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اور یہی مشکل ریحانہ کو پیش آرہی تھی۔ پہلے پہل جب اس نے اپنی سہیلیوں سے اپنی محبت کے بارے میں بتایا تو کسی کے لئے بھی یہ ایک ناقابل یقین سی بات تھی۔ اور سب نے الٹا ریحانہ کو ہی سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ پاگل پن چھوڑو کیوں اپنی اور ایک شادی شدہ آدمی کی زندگی برباد کرتی ہو۔ لیکن ریحانہ ان سب باتوں سے بے نیاز بس اپنی محبت کو پانے کی دھن میں ہر حد پار کرنے کو تیار تھی سو اس نے آہستہ آہستہ قیصر کو اس بات کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا کہ گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے عدالت میں جا کر نکاح کرلیتے ہیں تا کہ جب کبھی گھر والوں کو پتہ چلے تو اس نکاح کی وجہ سے کوئی انکار نہ کرسکے اور اپنی عزت بچانے کی خاطر چپ کر کے اسے رخصت کردیں۔
پہلے پہل تو قیصر نے ریحانہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ لو کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے لیکن ریحانہ کی ایک ہی ضد تھی کہ بس ایک بار نکاح لازمی کرنا ہے پھر یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیسے اپنے گھر والوں کو سمجھاتی اور مناتی ہے۔
بالآخر ایک دن ریحانہ اور قیصر نے عدالت میں جاکر وکیل کے ذریعے نکاح کرلیا اور پھر جو ہونا تھا وہی ہوا۔ پہلے تو قیصر کی بیوی کو پتہ چلا تو اس کے گھر میں قیامت آگئی اور بات نکلتے نکلتے ریحانہ کے گھر تک جا پہنچی۔ یوں دونوں گھروں میں ایک قیامت کا سا سماں تھا۔
قیصر نے تو کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی کو منا اور سمجھا لیا لیکن ریحانہ کے گھر والے کسی طریقے سے بھی راضی نہ ہوئے۔ ان کو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ریحانہ جیسی خوبصورت اور نوجوان لڑکی کسی شادی شدہ اور بڑی عمر کے آدمی سے یوں پیار کرسکتی ہے کہ نکاح تک کر لے گی۔ انہوں نے ریحانہ کو ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن رہحانہ اپنی بات پر ڈٹی رہی کہ جو بھی ہو اس نے زندگی قیصر کے ساتھ ہی گزارنی ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہو سکتی۔
جیسے کہ ہمارے معاشرے میں ہوتا آیا ہے، بجائے ریحانہ کے والدین ریحانہ کے جذبات اوراس کی زندگی کو ریحانہ کی نظر سے دیکھنے کے اپنی اناؤں کے اسیر ہوگئے اور ریحانہ کو مجبور کرنا شروع کردیا کہ اگر اس نے اپنے ماموں زاد سے شادی نہ کی تو سارے خاندانی رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ اس لئے ان رشتوں کو بچانے کے لئے اسے ہر حال میں قیصر سے طلاق لے کر اپنے ماموں زاد سے شادی کرنی پڑ ے گی۔
یہ وہ بات ہے جو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کی شادیاں یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ ان کی آپس میں کیسے نبھے گی اور ان کا آپس میں کتنا پیار سلوک ہو سکتا ہے اور یہ آپس میں ذہنی اور جسمانی مطابقت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں والدین کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ماں اپنے بھائی کے بچوں کو ترجیح دے رہی ہوتی ہے اور باپ کو اپنے بھائیوں کے بچے اچھے لگتے ہیں۔ اس لئے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اپنے بھائیوں کو خوش کیا جائے اور اس کوشش میں وہ اپنی اولاد کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ان کے بھائیوں کے بیٹوں بیٹیوں سے کوئی مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔
ریحانہ کی کہانی کا احتتام ہمارے معاشرے کی دو انتہاؤں کا عکاس ہے۔ جہاں ایک طرف ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں آج کی نسل میرا جسم میری مرضی تک آن پہنچی ہے وہیں کچھ ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں نکاح کے بعد بھی ایک لڑکی کو اس حد تک مجبور کیا جاتا ہے کہ اس سے موبائل فون تک چھین لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خاوند سے بات نہ کر لے اور اس کے پاؤں میں ماں اپنا ڈوپٹہ اور باپ اپنا ماتھا ٹیک دیتا ہے صرف اس لئے کہ وہ اپنے خاوند سے طلاق لے کر ان کے بھائیوں کے بیٹوں سے شادی کر لے ورنہ وہ رشتے ٹوٹ جائیں گے اور ریحانہ جیسی لڑکیوں کے ماں باپ جیتے جی مر جائیں گے۔ حالانکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ریحانہ جیسی لڑکیاں اگر ماں باپ کا کہا مان بھی لیں تو پھر وہ خود مر جائیں گی اور ساری زندگی مر مر کے جئیں گی۔ لیکن یہ کیسے والدین ہیں جن کو اپنی اولاد سے زیادہ اپنے بھائی پیارے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ بھائی اور وہ خود تو ایک دن مر جائیں گے لیکن جن کی ایسے مجبور کر کے شادیا ں کر رہے ہیں وہ اپنی باقی زندگی کیسے گزاریں گے اور ان کی آگے جو نسل آئے گی ان کی تربیت کیسے کریں گے۔
اس اناؤں کے اسیر معاشرے کے لئے صرف ایک شعر:
اپنی اپنی اناؤں میں گم
میں ، محبت ، اور تم

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here