لاہور: ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف انسانوں بلکہ جنگلی حیات پربھی انتہائی مضراثرات ہورہے ہیں پنجاب میں پرندوں کی کئی نسلیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہوگئیں جبکہ ان کی افزائش کاموسم بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔
ڈبلیوڈبلیوایف کے کنٹری ڈائریکٹر حماد نقی اور جامعہ پنجاب کے شعبہ زولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے ایکسپریس کوبتایاموسمیاتی تبدیلی دنیا کیلئے مسئلہ بن گئی، پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام ہیں جبکہ 380 اقسام کے لاکھوں پرندے ہرسال سائبیریا اورروسی ریاستوں سے ہزاروں کلومیٹرکا سفرطے کرکے پاکستان پہنچتے ہیں، ان کی آمد ستمبر اور واپسی مارچ کے وسط میں مکمل ہوتی ہے لیکن اس بار یہاں غیرمتوقع بارشوں کے باعث ان کی واپسی میں ایک ماہ کا فرق پڑگیا ہے۔ پنجاب کی جھیلوں اورآبی گزرگاہوں پر ہزاروں مہاجرپرندے بدستوردکھائی دیتے ہیں، ان کی واپسی اب اپریل میں مکمل ہونے کاامکان ہے۔
برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کم ہو چکی ہیں، 30 برسوں کے دوران ان کی آبادی میں نمایاں کمی ہوئی، ان میں سے متعدد معدومی کاشکار ہیں۔ 90 فیصد سے زائد پرندوں کو انسانی سرگرمیوں کے باعث غیرمحفوظ صورتحال اور بقاء کی مربوط کو ششوں کی کمی کا سامنا ہے، ان میں تلور، عقاب، مرغابیاں، بطخیں، کونج ، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے ڈائریکٹر نعیم بھٹی کے مطابق فضائی آلودگی اورفصلوں پر مختلف زہروں کے استعمال سے کئی اقسام کے پرندے اورکیڑے معدومی کا شکارہیں، ان میں چڑیا، طوطے، مینا، تلیر، کالا اوربھورا تیتر، بلبل، فاختہ، لالیاں، جگنو، تتلیاں اورڈریگن فلائی شامل ہیں۔
ان کی تعداد کتنی کم ہوئی؟ اس کی حتمی رپورٹ موجود نہیں تاہم مستقبل میں سروے کیا جائے گا تاکہ درست تعداد کا اندازہ لگا کرانھیں معدومی سے بچایاجاسکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے ان کی افزائش بھی متاثرہوئی ہے، مختلف اقسام کی چڑیاں، طوطے، تیتر، مینا، کوئل، بلبل، فاختہ اورلالیاں کی افزائش فروری کے اختتام سے شروع ہوکرستمبرتک مکمل ہوتی تھی۔ اب افزائش مارچ کے اختتام سے شروع ہوکراکتوبرمیں مکمل ہوگی۔
دوسری طرف پنجاب میں معدومی کے شکار سفیدپشت والی گدھوں کی مصنوعی ماحول میں افزائش کا تجربہ کامیاب رہاہے۔2005 ء میں ڈبلیوڈبلیوایف اورپنجاب وائلڈلائف کے اشتراک سے چھانگامانگا میں بنائے گئے گدھوں کے افزائشی مرکزمیں 14 برسوں کی محنت سے 6 بچے حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ پروگرام کے ڈائریکٹرحسن علی سکھیرا نے بتایا پاکستان میں 8 اقسام کے گدھ پائے جاتے تھے، جن کی نسل ختم ہوچکی، سفیدپشت والا گدھ سب سے زیادہ نایاب ہے۔ 2009 ء کے سروے کے مطابق سندھ اورپنجاب میں ان کی تعداد صرف 50 رہ گئی تھی۔
چھانگا مانگامیں گدھوں کے 7 جوڑے رکھے گئے، 2012 ء میں پہلی کامیابی ملی اورانڈوں سے بچے نکلے جوصحت مندہیں اورپرورش پارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا مادہ چیل سال میں ایک انڈہ دیتی ہے، ضروری نہیں ہرانڈے سے بچہ نکل سکے اوراگرنکل آئے تو زندہ بچ پائے۔ اس مرکزمیں گِدھوں کی خوراک کیلئے بکریاں اورخرگوش پالے گئے ہیں جبکہ گدھوں کا گوشت بھی انھیں کھانے کے لئے دیا جاتا ہے، امیدہے اس سال انڈوں سے مزید بچے پیدا ہوں گے، جب ان کی تعداد خاطرخواہ ہوجائیگی توپھرانہیں مخصوص علاقے میں چھوڑدیا جائیگا جہاں یہ قدرتی ماحول میں افزائش کرسکیں گے۔