سکندر اعظم 330 قبل مسیح میں افغانستان میں داخل ہوا‘ یہ چلتا چلتا ایک وادی میں پہنچااور انگوروں کے باغوں‘ تربوز کے کھیتوں اور میلوں تک پھیلے سیب کے درختوں نے اس کے قدم جکڑ لئے‘ وہ وادی میں رک گیا اور اس نے الیگزینڈریا کے نام سے وہاں شہر کی بنیاد رکھ دی‘ یہ سکندر اعظم کے نام سے بننے والا دنیا میں پہلا شہر تھا‘ مصر کاالیگزینڈریا افغانستان کے الیگزینڈریا کے بعد آباد ہوا‘ افغانستان کاالیگزینڈریا وقت کے ہاتھوں بنتا‘ سنورتا اور اجڑتا ہوا قندہار ہو گیا۔
یہ شہر دو ہزار تین سو سال تک دنیا کی عظیم گزر گاہ رہا‘ یہ یورپ اور چین کے درمیان بھی رابطہ تھا اور یہ سنٹرل ایشیا کا ہندوستان کے ساتھ تعلق بھی تھا‘ہندوستان پر حملہ کرنے والا
ہر طالع آزما پہلے قندہار پر قبضہ کرتا تھا اور اس کے بعد ہندوستان کی طرف مارچ کرتا تھا‘ نادر شاہ درانی کے صاحبزادے احمد شاہ درانی نے قندہار کو افغانستان کا دارالحکومت بنا دیا‘ انگریز نے 1880ءمیں جنرل سر فریڈرک رابرٹ کی کمان میں قندہار پر قبضہ کیا‘ یہ جنگ سیکنڈ افغان وار کہلاتی ہے‘ انگریزوں کے قبضے کے بعد قندہار کے تمام معزز خاندان بلوچستان ہجرت کر آئے‘ ان خاندانوں میں قندہار کے چیف جسٹس قاضی جلال الدین بھی شامل تھے‘ یہ سنی ہزارہ تھے اور علاقے کی معزز ترین شخصیت تھے‘ خان آف قلات نے انہیں پناہ دے دی اور یہ اپنے خاندان کے ساتھ پشین میں آباد ہو گئے‘ وہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں 1914ءمیں اولاد نرینہ سے نوازا‘ نومولود کا نام قاضی عیسیٰ رکھا گیا‘ قاضی عیسیٰ نے دینی علم بھی حاصل کیا اور انگریزی تعلیم بھی‘ یہ بلوچستان کے ان ابتدائی نوجوانوں میں شامل تھے جو اعلیٰ تعلیم کےلئے لندن گئے‘ قاضی عیسیٰ نے لندن سے بار ایٹ لاءکیا‘ 1939ءمیں واپس آئے اور قائداعظم سے ملاقات کےلئے کوئٹہ سے ممبئی چلے گئے‘ وہ قائد سے بے انتہا متاثر تھے‘ قائد بھی ان سے مل کر ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوگئے چنانچہ انہوں نے قاضی عیسیٰ کو نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل کر لیا بلکہ انہیں پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر بھی بنا دیا۔
وہ ورکنگ کمیٹی کے نوجوان ترین رکن تھے‘ قاضی عیسیٰ نے بعد ازاں اپنی زندگی قائداعظم اور تحریک پاکستان کےلئے وقف کر دی‘ آپ نے 1940ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان بنائی‘ یہ موجودہ پاکستان کی پہلی مسلم سیاسی جماعت تھی‘ قاضی عیسیٰ 23 مارچ 1940ءکولاہور میں قرارداد پاکستان کے جلسے میں بھی شریک ہوئے ‘ آپ نے بلوچستان کی نمائندگی بھی کی اور قرارداد کی دستاویز بھی تیار کیں‘ یہ قلات کے وزیراعظم بھی رہے‘ آپ نے 1940ءسے 1947ءکے درمیان پاکستان کا ووٹ مانگنے کیلئے تین لاکھ میل سفر کیا۔
یہ تحریک پاکستان کے دوران اتنا سفر کرنے والے واحد مسلم لیگی رہنما تھے‘ قاضی صاحب 1976ءتک حیات رہے‘ یہ اس دوران پاکستان کےلئے ہی جیتے اور پاکستان ہی کےلئے مرتے رہے‘ ان کی نسل سے دو لوگوں نے بعد ازاں بہت شہرت حاصل کی‘ پہلی شخصیت اشرف جہانگیر قاضی ہیں‘ یہ قاضی عیسیٰ کے بھانجے ہیں‘ پاکستان کے نامور سفارت کار رہے ہیں‘ امریکا میں بھی سفیر رہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی نمائندے بھی‘یہ شام‘مشرقی جرمنی‘ چائنہ اور روس میں بھی پاکستان کے سفیر رہے‘ قاضی خاندان کے دوسرے سپوت قاضی فائز عیسیٰ ہیں‘یہ قاضی عیسیٰ کے فرزند ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کراچی گرائمر سکول سے تعلیم حاصل کی‘ لندن سے قانون میں بی اے آنرز اور بار ایٹ لاءکیا‘ لندن میں پریکٹس شروع کی اور اپنی قانون فہمی سے گوروں کو حیران کر دیا‘ یہ 1982ءمیں پاکستان واپس آئے اور بلوچستان میں پریکٹس شروع کر دی‘ یہ ملک کی چاروں ہائی کورٹس بارز کے ممبر بھی رہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لائف ممبر بھی بنے‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے پانچ بڑے وکلاءمیں شمار ہونے لگے‘ ملک کی لیڈنگ لاءفرمزکے سربراہ اور پارٹنر رہے اور اربوں روپے کمائے۔
یہ 2009ءتک ملک میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے وکلاءمیں شامل تھے‘ یہ عدالت میں کھڑے ہوتے تھے تو نوجوان وکلاءان کا ایک ایک لفظ نوٹ کرتے تھے‘ ججز بھی قلم دانتوں میں دبا کر ان کی گفتگو سنتے تھے‘ عدالتیں انہیں پیچیدہ مقدمات میں عدالتی معاون بھی بناتی تھیں اور یہ عالمی عدالتوں میں بھی مقدمے لڑتے تھے‘ ان کے بے شمار مقدمات اور دلائل انٹرنیشنل لاءجنرلز میں شائع ہوئے اور دنیا کے نامور وکلاءنے اپنے دلائل میں کوٹ کئے۔
یہ نیشنل جوڈیشل کمیٹی کا حصہ بھی رہے اور یہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں بھی لیکچر دیتے رہے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وکیل تھے جنہیں 2009ءمیں ہائیکورٹ کا جج بنایا گیا اور پہلے ہی دن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی کرسی پر بٹھا دیا گیا‘ یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں اس نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا‘ یہ کیونکہ سیرچشم‘ خاندانی اور نسلوں سے رئیس انسان ہیں چنانچہ یہ بلوچستان میں بلاخوف و خطر فیصلے کرتے چلے گئے‘ یہ فیصلہ کرتے اور لکھتے وقت دبتے نہیں تھے۔
یہ کسی سے متاثر بھی نہیں ہوتے تھے لہٰذا ان کا دور بلوچستان ہائی کورٹ کے سنہرے ترین ادوار میں شامل تھا‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان میں تاریخی فیصلے کئے‘ یہ ستمبر 2014ءمیں سپریم کورٹ کے جج بنا دیئے گئے‘ چیف جسٹس ثاقب نثار ان سے خوش نہیں تھے چنانچہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کو اہم کیس نہیں دیتے تھے‘ یہ ان کے دور میں بڑی حد تک کارنر بھی رہے اور یہ کسی اہم بینچ کے سربراہ بھی نہیں بنائے گئے لیکن یہ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے معزز ترین جج رہے۔ یہ ملک کے ان چند ججوں میں شامل ہیں جو سماعت کے دوران اپنی غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں‘ وکلاءکو یہ بھی بتاتے ہیں ”یہ میرا اس نوعیت کا پہلا کیس ہے‘ میں آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں‘ آپ لاءکوٹ کریں“ ۔
جو سینئر اور جونیئر تمام وکلاءکو عزت بھی دیتے ہیں‘ جوپوری توجہ سے ان کی بات بھی سنتے ہیں اورجو صبح ساڑھے نو بجے سے ڈیڑھ بجے تک پوری توانائی کے ساتھ تمام مقدمات بھی سنتے ہیں‘جو کسی جج‘ کسی وکیل کو آج تک سست پڑتے‘ اونگھتے یا بور ہوتے نظر نہیں آئے‘ جو بری سے بری صورت حال میں بھی شائستگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘جو انگریزی‘ اردو اور بلوچی تینوں زبانوں کے ماہر ہیں‘جو سندھی‘ پشتو اور پنجابی بھی سمجھ لیتے ہیں اورجو باڈی لینگویج کے ایکسپرٹ بھی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آنکھیں بہت تیز ہیں‘ آپ زیادہ دیر تک ان کی آنکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘یہ بے انتہا ایماندار‘ بے لچک اور بے خوف بھی ہیں‘ آپ ان کا کوئی فیصلہ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان کے ایک ایک لفظ میں بے خوفی اور سادگی ملے گی۔
قاضی فائز عیسیٰ خاندانی رئیس ہیں‘ اربوں روپے کی جائیداد اور زمینوں کے مالک ہیں‘ پریکٹس سے بھی اربوں روپے کمائے اور اندر سے بھی مطمئن اور صابر انسان ہیں چنانچہ جب صدر عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس کی دستاویز پر دستخط کئے تو پورے ملک کی قانونی برادری میں سراسیمگی پھیل گئی‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین نے 29مئی کو بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا اور ٹیلی ویژن چینلز نے دھڑا دھڑ خبریں دینا شروع کر دیں‘ سوشل میڈیاپر بھی ڈس انفارمیشن کا سیلاب آ گیا۔
ملک دشمن عناصر ایکٹو ہوئے اور یہ ریفرنس کو فیض آباد دھرنے کے فیصلے سے نتھی کرنے لگے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019ءکو فیض آباد دھرنے کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا‘فیصلے میں کہا گیاتھا حکومت یا حکومتی ادارے قانون سب پر لاگو ہوتا ہے‘ املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا دی جائے‘منافرت کا فتویٰ دینے والوں پر انسداد دہشت گردی کی کارروائی کی جائے اور فیصلے میں حکومت پاکستان‘ وزارت دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان کو حلف سے روگردانی کے مرتکب ماتحتوں کےخلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی جاری کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی اور اسے ملک دشمنی بھی قرار دیا گیا لیکن پروپیگنڈا کرنے والے لوگ یہ بھول گئے قاضی فائز عیسیٰ بے شک ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ سنی ہزارہ ہیں‘ یہ لوگ ہزارہ کے شیخ علی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ قبیلہ اتنا ہی سنی ہے جتنا پیر افضل قادری ہیں‘ دوسرا آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے بانی اور لوگوں کو ”پاکستان کو ووٹ دو“ کی ترغیب دینے کےلئے تین لاکھ میل کا سفر کرنے والے قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے ملک دشمن کیسے ہو سکتے ہیں؟ ۔
حکومت نے 1990ءمیں قاضی فائز عیسیٰ کے والد کے نام پر ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا اور وہ ہماری تاریخ کے عظیم مشاہیر میں بھی شمار ہوتے تھے چنانچہ ہم اگر قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے کو ملک دشمن کاٹائٹل دے سکتے ہیں تو پھر اس ملک میں کوئی شخص محب وطن نہیں ہو سکتا‘ یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے شخص کے ساتھ زیادتی تھی اور یہ ہمیشہ زیادتی رہے گی‘ سپریم جوڈیشل کونسل میں 14 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی پہلی سماعت ہو گی‘ یہ کیس کس کروٹ بیٹھتا ہے ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ طے ہے حکومت یہ ریفرنس لانچ کر کے تاریخی غلطی کر بیٹھی ہے۔
وکلاءسے لڑائی ڈیم کے سپل وے پر نہانے کی کوشش ہے لہٰذا سپل وے کھلنے کی دیر ہے اور یہ پوری حکومت تتر بتر ہو جائے گی‘ کالے کوٹ وہ طاقت ہیں جن کا مقابلہ جنرل پرویز مشرف یونیفارم میں بھی نہیں کر سکا تھا جبکہ یہ حکومت صابن کے بلبلے پر کھڑی ہے‘ یہ کتنی دیروکلاءکا مقابلہ کر لے گی‘ ہماری تاریخ بتاتی ہے ملک میں آج تک جس نے بھی مدرسوں اور وکیلوں سے چھیڑ چھاڑ کی وہ پھر اس کے بعد ایوان اقتدار میں نظر نہیں آیا چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے حکومت اپنی اوقات سے بڑی غلطی کر بیٹھی ہے اور اگر حکومت نے اس غلطی پر یوٹرن نہ لیا تو یہ قدم اس کی آخری غلطی ثابت ہو گا‘ یہ لوگ اس کے بعد مزید کوئی غلطی نہیں کر سکیں گے‘ یہ ختم شد ثابت ہو جائیں گے۔