اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ زیادہ تر ڈائنوسار تقریباً گنجے ہوا کرتے تھے جبکہ زیادہ بال اور پر رکھنے والے خوش نصیب ڈائنوساروں کی اقسام بہت کم تھیں۔ لیکن چین سے ملنے والے 25 کروڑ سال قدیم رکازات (فوسلز) کا تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ٹیروسار‘‘ نامی اُڑن ہوّام (ریپٹائل) سمیت، بیشتر ڈائنوساروں کے جسموں پر اچھے خاصے پر بھی ہوا کرتے تھے۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پروں کا مقصد انہیں اُڑنے میں مدد فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ شاید وہ ڈائنوسار کو موسم کی سختیوں سے بچانے میں مدد کرتے تھے۔ پروں کے دوسرے مقاصد جیسے کہ پرواز، خوبصورتی اور صنفِ مخالف سے ملاپ وغیرہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں گے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز) کے جسموں پر کھپروں (اسکیلز)، پرندوں میں پروں اور ممالیوں میں بال اُگانے والا جینیاتی نظام بنیادی طور پر ایک ہی ہے، اس لیے قوی امکان ہے کہ پرندوں سے کروڑوں سال پہلے ہی پر وجود میں آگئے ہوں گے۔
واضح رہے کہ اب تک کے ارتقائی نظریات کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ جدید پرندوں کا ارتقاء ڈائنوسار سے ہوا ہے۔ یہ دریافت بھی ان ہی نظریات کی تائید کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ پرندوں سے بہت پہلے ہی وجود پذیر ہوگئے تھے۔
یہ تحقیق ’’ٹرینڈز ان ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن‘‘ نامی تحقیقی جریدے کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔