نیو کراچی گودھرا کیمپ کا رہائشی 10 سالہ فرحان اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ خوشی خوشی گھر سے نکلا تھا۔ ذہن میں بس ایک دھن سوار تھی کہ سمندر میں نہانا ہے اور مستی کرنی ہے، بہن بھائیوں پر خوب پانی پھینکنا ہے اور ہلہ گلہ کرنا ہے۔ ساحل پر کی جانے والی شرارتیں واپس آکر اپنے دوستوں کو بھی مزے لے لے کر سنانے کا پلان بھی بنایا ہوگا۔ کچھ اس طرح کے خیالات ذہن میں رکھ کر فرحان اپنے بہن بھائیوں کا ہاتھ تھامے گھر سے نکلا ہوگا، مگر اسے اور اس کے گھر والوں کو کیا معلوم تھا حافظ فرحان کی یہ تفریح اس کی زندگی کی آخری تفریح ہوگی۔ ساحل پر چلنے والی گو کارٹ اس کی جان لے لی گی اور اس کے بہن بھائی فرحان سے ہمیشہ کےلیے بچھڑ جائیں گے۔ والدین نے فرحان کو لے کربہت سے خواب آنکھوں میں سجائے ہوں گے کہ بڑا ہوکر یہ ہمارا سہارا بنے گا۔ مگر ان بدنصیبوں کو کیا معلوم تھا سہارا بننے سے پہلے ہی فرحان کو کندھا نصیب ہوجائے گا۔
دنیا کے کسی بھی ساحل پر نظر ڈالی جائے تو کہیں بھی گوکارٹ کا تصور نظر نہیں آئے گا۔ اس قسم کی تفریح صرف اور صرف چند روپوں کےلیے کراچی جیسے نام نہاد میگاسٹی میں ہی نظر آئیں گی۔ کبھی غیر معیاری جھولے کسی کی جان لے لیتے ہیں، تو کہیں نام نہاد میگاسٹی کا بے ڈھنگ ٹرانسپورٹ نظام خاندان کے خاندان اجاڑنے میں مصروف ہے۔
میگا سٹی کراچی کی پولیس اپنے طور پر امیر سے امیر تر ہوتی جارہی ہے، جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شہر میں کیا ہورہا ہے۔ انہیں صرف اپنی اندھی کمائی سے غرض ہے۔ کچھ اسی طرح مختلف ادارے بھی اس شہر پر قبضہ کرکے اسے اپنی جاگیر گردانتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن بھی ہے، جس نے کمائی کا کوئی ذریعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مزار پر غنڈہ ٹیکس پارکنگ کے نام پر وصول کیا جارہا ہے تو ساحل پر مختلف جگہوں پر ڈنڈے لگا کر اور ڈنڈا بردار بٹھا کر ان سے غیر قانونی طورپر پارکنگ، پارکس اور دیگر فیس وصول کی جارہی ہے۔ ساحل پر تجاوزات قائم کرکے اسے قانونی شکل دے کر ٹھیلے والوں کو بسا دیا گیا ہے اور کہیں غیر قانونی معاہدے کرکے مضرصحت اشیا کے ڈھابے بناکر دے دیے ہیں، جہاں فوڈ اتھارٹی جیسے ادارے کا بھی کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔
گوکارٹ کو ایک معاہدے کے تحت ساحل پر آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لازماً اس معاہدے کے پیچھے بھی ایک بھاری رقم کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے کھاتے میں جارہی ہوگی۔ معلوم نہیں اس معاہدے میں کیا درج ہے، مگر اتنا ضرور ہے کہ اس معاہدے میں یہ ضرور لکھا ہوگا کہ کسی جانی نقصان کی صورت میں انتظامیہ ذمے دار نہیں ہوگی۔ یہ تحریر معاہدے میں سب سے اوپر لکھی ہوگی تاکہ جب کبھی کوئی اس طرح کا حادثہ ہو تو فوری طور پر قانونی طریقے سے خود کو بچایا جاسکے۔
گوکارٹ کراچی کے ساحل کے سوا دنیا میں کسی بھی ساحل پر نظرنہیں آئے گی۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں ایک یہ کہ لوگ گاڑیوں اور شور شرابے سے دور اور کچھ پل سکون کے گزارنے کےلیے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں ان ممالک کا قانون انہیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی شخص کسی کی پرائیویسی اور آرام میں خلل ڈالے۔
لیکن کراچی میں ان تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔ تفریحی جگہوں پر ایسی ایسی بے ڈھنگ چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے ایک طرف سکون برباد ہوتا ہے تو دوسری طرف جان کے ضیاع کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے۔
ایس پی کلفٹن سہوائے عزیز کو اس حوالے سے پہلے بھی مطلع کیا جاچکا ہے کہ گوکارٹ کے ڈرائیورز جہاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلاکر دوسروں کےلیے نقصان کا باعث بن رہے ہیں، وہیں سکون میں خلل ڈالنے میں مصروف ہیں۔ ان کی بدتمیزی اور بے ہودگی کے باعث شریف آدمی ساحل پر جانا پسند نہیں کرتے۔ مگر افسوس کہ ان کے جواب نے ہمارے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ سہوائے عزیز کا کہنا تھا کہ انہیں روکنا ہمارا کام نہیں، اور نہ ہی یہ ہمارے ذمے کا کام ہے، ان کے خلاف کارروائی کا حق صرف ٹریفک پولیس کی ذمے داری ہے۔ ہمارا کام صرف کرائم کو ہونے سے روکنا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر ٹریفک پولیس کا کیا کام؟ اگر مان لیا جائے کہ یہ کام ٹریفک پولیس کا ہے تو پھر آج تک ٹریفک پولیس ساحل پر نظر کیوں نہیں آئی؟ پولیس ڈائریکٹری میں کہیں بھی اس حوالے سے کسی بھی چوکی یا کسی بھی اہلکار کی تعیناتی کا ذکر نہیں۔ ساحل پر ٹریفک کنٹرول کرنے کا کہیں بھی قانون میں ذکر نہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ساحل پر کسی بھی قسم کی گاڑی چلانا ممنوع ہے۔ اس لیے نو ٹریفک زون میں کسی ٹریفک پولیس اہلکار کی تعیناتی بلاوجہ ہوگی۔
اگر یہ کام ٹریفک پولیس کا تھا تو پھر حادثے کے وقت ٹریفک پولیس کہاں تھی؟ اور اس نے اپنا کیا کردار ادا کیا؟ ایس پی سہوائے عزیز کو شاید یہ بات بھی اب جاکر معلوم ہوئی ہوگی کہ اس گوکارٹ کا کوئی معاہدہ بھی ہوا ہے، جس کے بنیادی نکات بھی اب جاکر چیک کیے جارہے ہیں کہ آخر اس معاہدے میں کیا لکھا ہے۔
اس سے قبل کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے کیوں معلومات حاصل نہیں کی گئی؟ کیا پولیس ڈپارٹمنٹ کو ساحل پر یہ گوکارٹ پہلی مرتبہ نظر آئی تھی؟
ہزاروں شہری روزانہ ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں اور ان کی جان ومال کی حفاظت کی ذمے داری پولیس ڈپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں کنٹونمنٹ کی طرف سے کیا جانے والا غیر قانونی معاہدہ پولیس کی نظروں سے کیوں اوجھل رکھا گیا؟ کیا اس سے کنٹونمنٹ بورڈ کو اپنی غیرقانونی آمدن کا راز کھل کر سامنے آنے کا ڈر تھا؟ اس طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔
فرحان کا حادثہ پہلا نہیں، اس سے قبل بھی کئی بچے، بوڑھے اور خواتین گوکارٹ کے باعث حادثوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ مگر پولیس محض رسمی کارروائی کرکے معاملہ رفع دفع کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی رہی ہے۔ ساحل پر موجود پولیس اہلکار کبھی کبھار ہی نظر آتے ہیں، زیادہ تر پولیس اہلکار وہاں نظرآتے ہیں جہاں صرف ’’جوڑے‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی اصل کمائی کا ذریعہ وہی لوگ ہیں یا پھر ساحل پر قائم کی گئی تجاوزات کے بدلے اپنی جیبیں گرم کرتے نظر آتے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے آمدن کے کئی ذرائع تو بنا رکھے ہیں، مگر سہولیات کے نام پر صرف عوام کو بے وقوف ہی بنایا جارہا ہے۔ ساحل پر آنے سے پہلے پارکنگ فیس ادا کرنا لازمی ہے، مگر گاڑی کی حفاظت ان کی ذمے داری نہیں۔ ساحل پر مضرصحت اشیا بیچی جارہی ہیں، مگر انہیں چیک کرنا کنٹونمنٹ کا کام نہیں۔ ساحل پر گوکارٹ جانیں لے رہی ہے، مگر اسے روکنا کنٹونمنٹ کے ذمے نہیں۔ لائف گارڈز کی تعیناتی کا بھی کوئی تصور نہیں، کیوں کہ یہ بھی کنٹونمنٹ کی ذمے نہیں آتا۔ غیر معیاری جھولوں کا لائسنس دے کر پیسے بٹورنے کے بعد ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ سے ان جھولوں کو چیک کرانا بھی ان کی ذمے داری میں نہیں۔ تفریح کی غرض سے بنائے جانے والے پارکس بھی ان کی حرام خوری سے محفوظ نہیں رہے۔ صرف 3 سال تک کے بچوں کو رعایت دے کر عوام پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے، باقی پارک میں آنے والا کوئی بھی شخص بغیر فیس ادا کیے اندر داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے تمام تر غیرقانونی کام میں ملوث کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن صرف عوام سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہے، لیکن سہولیات کے نام پر انہیں صرف ’’ٹھینگا‘‘ دکھایا جاتا ہے۔
اگر کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اور کلفٹن پولیس یہ سمجھتی ہے کہ 10 سالہ فرحان کی موت کی ذمے داری ان پر عائد نہیں ہوتی تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔ کیوں کہ گوکارٹ کا معاہدہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے کیا تو دوسری طرف پولیس نے لائسنس اور فٹنس معیار کو چیک کیے بغیر انہیں ساحل پر آنے کی اجازت دی۔ ان دونوں ڈپارٹمنٹس کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے، تاکہ آئندہ ایسا کوئی حادثہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ٹریفک اہلکار بھی ساحل سمندر پر تعینات کردیے جائیں، تاکہ آئندہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔