روزگار چاہئے؛ جاپان آیئے!

رزق دینے کا وعدہ بے شک اللہ کا ہے اور وہی رازق ہے، مگر اس کی تلاش ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس سے ہر جاندار کو گزرنا پڑتا ہے۔ پرندے صبح اپنے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں اور سرشام اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے ہیں۔ اللہ کے پیدا کردہ رزق سے خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتے ہیں۔ لیکن انسان کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ انسان دوسرے جانداروں کی طرح سامانِ زیست دے کر پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ ضروریات زندگی پورا کرنے کےلیے اسباب کا مکلف بنایا گیا ہے۔

آدمی کی زندگی کا دارومدار خوراک حاصل کرلینے تک نہیں ہے، بلکہ گرمی، سردی، برسات سے بچاؤ اور لباس و قیام کا انتظام بھی خود ہی کرنا ہے۔ زندگی کو درکار تمام ضروریات زندگی کے انتظامات انفرادی طور پر کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، اسی لیے ارسطو نے انسان کو ایک سماجی جانور سے تعبیر کیا۔

جیسے جیسے دنیا متمدن ہوتی گئی، نظام بنتے گئے۔ رزق کا وعدہ بے شک اللہ کا ہے مگر دنیاوی نظام کے تحت شہریوں کو خودکفیل کرنا ریاست کی ذمے داری قرار پائی۔
مایوسی بھی کفر ہے، فی الحال وقت کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ ہماری حکومت ابھی تک عوام کو خودکفیل اور متمول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں، خاص کر نوجوانوں میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ لوگ گھر سے رزق کی تلاش میں نکلتے تو ہیں مگر اکثر اس سفرمیں اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ پرندوں کی طرح شام ہوتے ہی اپنے آشیانے پر نہیں لوٹ پاتے۔ کہیں کا کہیں پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارا مشرقی معاشرہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے عزیزوں سے اور اپنے ماحول سے دور ہونا آسان نہیں، مگر اپنے لواحقین کی ضروریات زندگی پورا کرنے کی خاطر آدمی دور دراز کے اجنبی ملک تک جاپہنچتا ہے۔ اپنے گھر والوں کی یاد میں رہتا ہے اور خود یادوں کے سہارے جیتا ہے۔ بعض دفعہ بالکل دل نہیں لگتا مگر پھر یہ سوچ کر دل کو بہلایا جاتا ہے کہ ہماری قربانی سے گھر والے تو خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اچھا کھا رہے ہیں، اچھا پہن رہے ہیں۔ چھوٹے بہن بھائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جب حکمراں کہہ رہے ہیں تو ایک دن آئے گا سب اچھا ہوہی جائے گا۔

میں اب سے تیس سال پہلے رزق کی تلاش میں نکلا تھا، اُس کے بعد سے مسلسل لوگ نکل ہی رہے ہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح نکلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ میں خود ان مشکلات سے گزر چکا ہوں، لہٰذا لوگوں کے جذبات اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دیں۔ مگر افسوس کہ اپنے ہی ملک میں ایک مخصوص طبقہ تو ایسا کرنے میں کامیاب ہے لیکن عام آدمی اپنی اس سوچ کی تکمیل کےلیے دیار غیر جانے پر مجبور ہے کہ اچھے ملکوں کے حکمرانوں نے لوگوں کےلیے روزگار کے مواقع وافر مقدار میں مہیا کیے ہوئے ہیں اور عوام حکومتی فکر میں سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔

میرا جب بھی وطن آنا ہوا، بے شمار لوگوں کو باہر جانے کی جدوجہد کرتے ہوئے پایا۔ جن میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں، لیکن زیادہ تر کو امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا وغیرہ جانے کی کوشش کرتے پایا۔ لوگ جاپان سے زیادہ واقف نہیں پائے گئے۔ سوائے اس کے کہ جاپان ایک انڈسٹریل ملک ہے اور چیزیں بنا کر دنیا بھر میں بھیجتا ہے۔ جبکہ دنیا میں جہاں بھی ترقی کے ضمن میں کام ہورہے ہیں، جاپان کسی نہ کسی لحاظ سے اُن میں شریک رہتا ہے۔

جاپان نے سیاحت کو بھی ایک صنعت بنا ڈالا ہے۔ اس وقت جاپان ایک ملٹی نیشنل کنٹری بنتا جارہا ہے۔ میں خود جاپان میں رہتے ہوئے چاہوں گا کہ اپنے ہم وطن بھائیوں کو جاپان آنے کی ترغیب دوں، کیونکہ یہاں پاکستان کے علاوہ برصغیر کے دیگر ممالک سے بہت زیادہ لوگ آرہے ہیں۔ اولمپک کے انعقاد کے بعد جاپان میں ہر سطح پر کام میں اضافہ ہوا ہے۔

جاپان میں اجنبیت کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ بہت مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ زندگی بہت بے خوف اور پرسکون ہے۔ کہیں بدامنی نہیں ملے گی۔ بدنظمی نہیں ملے گی۔ آمدنی اور سہولیات میں کوئی ملک جاپان سے بہتر نہیں ہے۔ پاکستان سے جاپان آنے کےلیے انفرادی طور پر ہی آیا جاسکتا ہے۔ ویزا مشکل ضرور ہے، مگر کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد اگر آپ جینوئن ہیں تو ویزا لازمی ملے گا۔

جاپان دو طرح کے لوگوں کےلیے بہت مناسب ہے۔ ایک تو وہ جو لوگ پڑھنے آنا چاہتے ہیں، دوسرے وہ جو کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ جاپان کا تعلیمی معیار بہت بلند ہے اور ساری دنیا میں جاپان سے حاصل کردہ سند کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں پر تمام اسٹوڈنٹس اپنے اخراجات کام کرکے نکال لیتے ہیں، بلکہ کچھ پس انداز کرکے لواحقین کو بھی بھیج دیتے ہیں۔ اسی طرح کاروبار کرنے والے حضرات بھی بغیر کسی کفیل اور ضامن کے آزادانہ اپنا ذاتی کاروبار کرسکتے ہیں۔

جاپان آنے کے خواہشمند افراد مناسب ہوگا کہ لینگویج کورس کرلیں، جو کہ قونصلیٹ کے تعاون سے کرایا جاتا ہے۔ جاپانی زبان سیکھ لینے کے بعد آپ جاپان میں بہت جلدی اپنی جگہ بناسکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ کورس رائیگاں نہیں جائے گا۔ کیونکہ جاپان کی کمپنیاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ میرے کئی جاننے والے اس کورس کی وجہ سے یا جاپان سے پڑھ کر جانے کے بعد اچھی جگہوں پر کام کررہے ہیں۔ لیکن جاپان آنے والوں کی تعداد آج بھی بہت کم ہے اور جاپان کو ایک مشکل ملک سمجھا جاتا ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ جب آپ یہاں آئیں گے تو ہر قدم پر آسانیاں پائیں گے۔

Niaz Shakir: Niaz Shakir is the CEO of UK Newsline and the former Sub Editor at the Daily Mashriq Balochistan. He has written numerous articles in Urdu and English in various newspapers of Pakistan.