شاباش گروپ

0
790
Javed Chaudhry urdu columns

پیرس کے اوپیرا ہاؤس میں مشرقی یورپ کے ایک نامور موسیقار نے پرفارمنس کیلئے آنا تھا‘ اوپیرا کے تمام ہالز اور گیلریز کے ٹکٹ بک چکے تھے اورتماشائی کوریڈورز اور سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھی موسیقار کی پرفارمنس دیکھنے کیلئے تیار تھے‘ شو کا ٹائم ہو گیا‘ پیرس کے شائقین اپنے شاندار لباس میں خوشبو لگا کر اوپیرا ہاؤس پہنچ گئے اور بے تابی سے موسیقار کی پرفارمنس کا انتظار کرنے لگے لیکن پھر انتظار کی گھڑیاں طویل ہونے لگیں۔

وقت گزرتا چلا گیا اوراوپیرا ہاؤس میں بیٹھے مرد وزن بے چینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ اچانک پردہ اٹھا اور شو کا منتظم مائیک تھام کر اداس لہجے میں بولا”خواتین وحضرات میں دلی دکھ کے ساتھ اعلان کرتا ہوں ہمارے محبوب موسیقار کو

دل کا دورہ پڑ گیا‘ ہمارا سٹاف اسے ہسپتال لے گیا ہے‘ ہمیں افسوس ہے آپ اس کا فن دیکھنے کیلئے یہاں جمع ہوئے ہیں لیکن انسان قدرت کے کاموں میں دخل نہیں دے سکتا‘ بہرحال ہمارے پاس پیرس کا ایک نوجوان موسیقار موجود ہے‘ یہ موسیقار بھی اتنا ہی خوبصورت وائلن بجاتا ہے جتنااچھا وائلن سننے کے لیے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں‘ آپ سے میری درخواست ہے آپ اس نوجوان کو پرفارم کرنے کا موقع دیجیے آپ مایوس نہیں ہوں گے“ اس کے ساتھ ہی منتظم نے ایک غیر معروف نام لیا اور ایک تیس بتیس سال کا جوان شخص وائلن لے کر سٹیج پر آ گیا‘ اس نے وائلن بجانا شروع کیا لیکن وہ تماشائیوں کو متاثر نہ کر سکا‘ لوگ بوریت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے یا آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ وہ جوان موسیقار وائلن بجاتا رہا‘ بجاتا رہا جب تھک گیا تو داد کیلئے ہال میں موجود لوگوں کے سامنے بار بار جھکنے لگا لیکن ہال میں ایک خوفناک خاموشی تھی‘ موسیقار مکمل طور پر مایوس ہو گیا‘ وہ واپس جانے کیلئے مڑا لیکن پھر اچانک مہمانوں کی گیلری سے ایک بچہ اٹھا‘ وہ سیٹ پر کھڑا ہوا اور پوری رفتار سے تالیاں پیٹ پیٹ کر نعرے لگانے لگا ”یو آر ونڈر فل‘ یو آر ونڈر فل‘ میں نے آج تک اتنا اچھا وائلن نہیں سنا‘ ویل ڈن پیٹر‘ ویل ڈن پیٹر“۔
موسیقار کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی‘ اس نے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ کربچے کو ہوائی بوسا دیا اور لوگوں کے سامنے جھک گیا‘ ہال میں موجود خواتین وحضرات نے مہمانوں کی گیلری میں کھڑے بچے کی طرف دیکھا‘ اسے دیوانہ وار تالیاں پیٹتے پایا توانہیں محسوس ہوا موسیقار کی پرفارمنس اتنی بری نہیں تھی چناں چہ ہال میں موجود تمام لوگ اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھے اوردیوانہ وار تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ یہ سب لوگ ”ویل ڈن پیٹر“ کہہ رہے تھے۔ وہ جوان موسیقار ساری رات وائلن بجاتا رہا اور تماشائی اس کے اعزاز میں تالیاں پیٹتے رہے یہاں تک کہ رات کے پچھلے پہر وہ جوان پیرس کا مقبول ترین وائلن نواز بن چکا تھا‘ اس کا نیا کیریئر شروع ہو چکاتھا اور اس کا یہ کیریئر آٹھ سال کے ایک بچے کی تالیوں کا مرہون منت تھا۔

ہم سب انسان ہیں اور انسان کیلئے داد‘ تالیاں‘ ویل ڈن‘ شاباش‘ بہت خوب اور آپ نے کمال کر دیا جیسے لفظ آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں‘ ہم روزانہ جس مشقت سے گزرتے ہیں اور ہم صبح سے شام تک پیشے‘ فن اور کام کی جو صلیب کندھے پر اٹھا کر پھرتے رہتے ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ویل ڈن‘ واہ جی واہ‘ شاباش اور کیا بات ہے۔۔بس۔ ہماری ساری زندگی‘ ہماری ساری مشقت ان چند لفظوں سے بندھی ہوتی ہے‘انسان اور جانوروں میں صرف تخلیق کا فرق ہوتا ہے۔

انسان نے اپنی ہر محرومی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے شکست دے دی جبکہ جانور ایسا نہیں کر سکے مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کو رات دی‘ انسان نے مشعل‘ چراغ‘ موم بتی اور برقی قمقمے کے ذریعے اس رات کو دن میں بدل دیا‘ قدرت نے انسان کو کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پرپیدا کیا‘ اسے پسینے کی بو دی‘ اسے ننگے بدن اور ننگے پاؤں زمین پر بھجوایا‘ اسے کمزور ٹانگیں اوربغیر پنجوں کے پیدا کیا‘ اس کی جلد کو نرم رکھا اور اس کے جسم کو پروں‘ سر کو سینگ اور منہ کو تیز نوکیلے دانتوں سے محروم رکھا۔

لیکن انسان نے اپنی ان تمام محرومیوں کو خوفناک ہتھیار‘ تیز رفتار گاڑیوں‘ بلٹ پروف جیکٹس‘ مضبوط جوتوں‘ دیدہ زیب کپڑوں‘ خوشبودار صابن‘ شیمپو اور پرفیومز‘زلزلہ پروف گھروں‘ ہوائی جہازوں اور چھتریوں کی ایجاد سے دور کر لیا جبکہ انسان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی جانور آج تک کوئی مکان بنا سکا‘ کوئی جہاز بنا سکا‘ پیزا ایجاد کر سکا‘ شیمپو ایجاد کر سکا اور نہ ہی یہ ٹوتھ پیسٹ کرنا سیکھ سکا۔ دنیا کے پہلے انسان اور آج کے اکیسویں صدی کے انسان کے لائف سٹائل میں سات آسمان کا فرق ہے۔

جبکہ دنیا کی پہلی بھیڑ اور آج کی اکیسویں صدی کی بھیڑ‘ حضرت آدم ؑ کے زمانے کی بھینس اور آج کی سپرسانک اور لیزر ایج کی بھینس کے لائف سٹائل میں کوئی فرق نہیں‘ بھینس کل بھی بھولی تھی اور یہ آج کے پیزا دور میں بھی چارہ ہی کھا رہی ہے! یہ ہے فرق انسان اور جانور میں لیکن یہ فرق پیدا کیسے ہوا؟ یہ فرق تالیوں‘ شاباش اورواہ جی واہ کا مرہون منت ہے۔ انسان میں دوسروں کو متاثر کرنے کی خوفناک خواہش موجود ہے‘ یہ اپنی شہرت کو ”ٹائم لیس“ بنانا چاہتا ہے۔

اس کی خواہش ہوتی ہے صدیوں بعد بھی جب اس کا نام لیا جائے تو لوگ سیٹوں سے اٹھ کرتالیاں بجائیں۔ ہم جب اس آٹھ سال کے بچے کی طرح اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر کسی کیلئے تالیاں بجاتے ہیں یا ویل ڈن بش یا شاباش بشیر کہتے ہیں تو اس کے حوصلے کو ایک سیکنڈ میں اٹھارہواں گیئر لگ جاتاہے‘ اس کے اندر موجود آئن سٹائن محرومی کے چھلکے پر ٹھونگیں مارنے لگتا ہے اور اس کے اندر کابل گیٹس بطن کی دیواریں چھیلنے لگتا ہے۔ آپ دنیا کے نامور لوگوں کی ہسٹری دیکھ لیں آپ کو ہر شخص کی زندگی میں آٹھ سال کے بچے جیسا کوئی نہ کوئی مداح ملے گا جس نے سیٹ سے اٹھ کر اس کیلئے ویل ڈن کا نعرہ لگایاہو گا۔

اور اس ایک نعرے نے اس کی ساری تلخیوں‘ اس کی ساری محرومیوں کے سارے داغ دھبے دھو دیے ہوں گے۔ انسان کو کام یابی کیلئے دوسرے انسانوں کی ہمت اور مدد درکار ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی ہمت افزائی کو اپنے لائف سٹائل کا حصہ بنا لیتے ہیں‘ جس میں لوگ دوسروں کی سپورٹ کو روٹین کی شکل دے دیتے ہیں‘ اس میں کام یاب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے وہ معاشرے غار کی زندگی کی طرف چلے جاتے ہیں۔

میں انسان کی اس فطرت کو سامنے رکھ کر جب اپنے معاشرے کو دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے‘ ہم لوگ دوسروں کیلئے تالی بجانے کے معاملے میں کتنے کنجوس واقع ہوئے ہیں؟ ہم مر جائیں گے لیکن ہمارے منہ سے دوسروں کے لیے ویل ڈن یا شاباش کا لفظ نہیں نکلے گا اور ہماری اس کنجوسی نے ہمارے معاشرے کو مصیبتوں کا گھر بنا دیا ہے۔ہم سب لوگ ٹینشن میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم لوگ شاباش کی بجائے شکوہ کے ماہر ہو گئے ہیں‘ آپ آج سے جائزہ لے لیں آپ کو محسوس ہوگا ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی گفتگو شکوے سے سٹارٹ ہوتی ہے اور شکوے پر ختم ہوتی ہے۔

ہم کسی دوست سے ملتے ہیں تو ہمارا پہلا فقرہ ہوتا ہے ”یار اب تم تو مجھے ملتے ہی نہیں ہو‘ اوئے تم کہاں غائب رہے‘ بھائی جان میں نے آپ کو پندرہ فون کئے لیکن آپ نے اٹھایا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ“ دوسرا ہم لوگ دوسروں کی خوشیوں پر ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے ہمیں معلوم ہی نہیں تھا اور ان دونوں رجحانات نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک شاباش گروپ بنایا ہے‘ ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے ہم زندگی سے شکوے کم کر دیں گے۔

ہم اپنی گفتگو کا آغاز کبھی شکوے سے نہیں کریں گے اور ہمیں جہاں کوئی شخص کوشش کرتا دکھائی دے گا ہم آٹھ سال کے بچے کی طرح اس کیلئے تالی بجائیں گے‘ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہمارا یہ گروپ کام یاب جا رہا ہے‘ ہم اپنے سرکل میں صحت مندانہ تبدیلی بھی دیکھ رہے ہیں۔ میری خواہش ہے آج سے آپ بھی ہمارے اس گروپ کے ممبر بن جائیں‘ آج سے آپ بھی شکوہ کرنا بند کر دیں اور دوسروں کی خوبیوں اور کامیابیوں پر آٹھ سال کے اس فرنچ بچے کی طرح تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ یقین کیجئے آپ اور معاشرے کی تلخیاں کم ہو جائیں گی‘ ہم بھی انسانی معاشرہ بن جائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here