کہتے ہیں کہ کسی شخص کو دفتر سے ایک دن کی چھٹی چاہیے تھی تو اس نے مالک کو درخواست دے دی۔ فوراً ہی اسے طلب کرلیا گیا۔ مالک نے اسے سر سے پاوں تک ایک نظر دیکھا اور تصدیقی انداز میں پوچھا، اچھا تو جناب کو ایک دن کی چھٹی چاہیے؟ اس نے مجبور سی شکل بناتے ہوئے سر ہلایا تو مالک نے پوچھا، پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے سال بھر میں کام کب کیا ہے جو تمہیں چھٹی چاہیے؟ اس نے فوراً بتایا کہ میں پورا سال باقاعدگی سے دفتر آیا ہوں اور وقت مقررہ پر چھٹی کی ہے اور اس پورے ایک سال میں کوئی چھٹی بھی نہیں کی۔
مالک نے ہاتھ میں پکڑی درخواست کو میز پر رکھا، سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر ایک گہرا سانس لیا اور پھر کہنے لگا۔ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں، یعنی باون ہفتے، جس کا دوسرا مطلب کہ ہر ہفتے کی دو چھٹیاں کرنے کے بعد کام کے دن بچے صرف دو سو اکسٹھ۔ روزانہ تم آٹھ گھنٹے کام کرتے ہو اور سولہ گھنٹے کی چھٹی کرتے ہو، اسے بھی دنوں میں بدلیں تو مزید ایک سو ستر دن کم ہوگئے اور باقی بچے صرف اکانوے دن۔ روز ایک گھنٹہ لنچ اور آدھا گھنٹہ کافی یا چائے کی بریک کرتے ہو تو تقریباً ایک کم ستر دن تو یہ بھی ہوگئے۔ اب باقی بچے تمہارے بائیس دن۔ ان میں سے پانچ چھٹیاں دفتر کی طرف سے ملتی ہیں اور پندرہ چھٹیاں سالانہ تمہارا استحقاق ہوتا ہے، جو تم نے کبھی نہیں چھوڑیں۔ ایک آدھ دن بیماری کی وجہ سے بھی نہیں آپائے تو اب پورے سال میں باقی رہ گیا ایک دن۔ اور اس ایک دن کی بھی تمہیں چھٹی چاہئے؟ ملازم نے خاموشی سے اپنی درخواست اٹھائی اور واپس پلٹ گیا۔
مجھے یہ قصہ تحریک انصاف کے الیکشن جیتنے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کی وجہ سے یاد آیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں ملک کے حالات بدلنے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ ہم اس معاشرے کو ریاست مدینہ جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ بہت سے ناقدین نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی ہر بات پر ریاست مدینہ، ریاست مدینہ کی رٹ لگانی شروع کردی۔ کوئی بھی بات شروع ہوتی ان کی تان ریاست مدینہ کے بیان پر آکر توٹتی۔ تو ہونٹوں پر بے اختیار ایک مسکراہٹ سی آجاتی اور مجھے ملازم کی چھٹی والا یہ قصہ یاد آجاتا۔
مسلمان ہوتے ہوئے یقیناً ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہیں جو ریاست مدینہ جیسا ہو، لیکن کیا اس کےلیے خواہش ہی کافی ہوگی یا پھر کوئی عملی کوشش بھی اختیار کرتے ہوئے ہم ریاست مدینہ کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے آپ کو قائداعظم کا وہ واقعہ ضرور یاد رکھنا چاہیے جب ان سے کچھ طالب علم ملنے آئے تو انہوں نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس سائیکلیں ہیں؟ سبھی نے ہاں میں جواب دیا، تو اگلا سوال پوچھا کہ کس کس نے اس پر بتی لگوائی ہوئی ہے؟ کیونکہ ان دنوں حکومت کی طرف سے ہر سائیکل پر بتی لگوانے کا حکم تھا۔ قائداعظم نے تمام طالب علموں سے سوال کیا۔ صرف ایک طالب علم نے ہاتھ کھڑا کیا تو قائداعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ صرف یہ ایک میرے پاکستان کا شہری ہے۔ باقی قانون پسند نہیں تو یہ میرے ملک کے شہری نہیں ہوسکتے۔
آئیے اب ذرا ان دو وا قعات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ مستقبل کی ریاست مدینہ کتنے شہریوں پر مشتمل ہوگی۔
پاکستان کی کل آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے، لیکن الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف دس کروڑ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً پچاس سے باون فیصد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، یعنی دس میں سے پانچ کروڑ لوگ اور کم ہوگئے۔ جنہوں نے حق رائے دہی استعمال کیا ان میں سے صرف پونے دو کروڑ افراد نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا، یعنی اس پورے ملک سے سوا بیس کروڑ لوگ بلاواسطہ یا بالواسطہ ریاست مدینہ کے خلاف ووٹ دے چکے ہیں، اور ریاست مدینہ کے خواہش مندوں کی تعداد صرف پونے دو کروڑ ہے۔
اب ان پونے دو کروڑ لوگوں میں سے وہ سارے دکاندار نکال دیں، جنہوں نے مہنگائی اور ملاوٹ کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے اور گاہک کی کھال کھینچ لینا اپنا پہلا فرض سمجھتے ہیں۔ ہر دینی اور دنیاوی تہوار پر منافع خوری جن کی عادت ہے۔ ذخیرہ اندوزی کو جو کسی گناہ میں شمار ہی نہیں کرتے۔ ان میں سے وہ سارے وکیل بھی نکال دیں، جو صرف اس لیے بھی جھوٹے مقدمے لے لیتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو روزی روٹی کمانے آئے ہیں۔ وہ سارے جج بھی نکال دیں جو جلد انصاف نہ کرسکے اور ان کی عدالتوں میں ایک غریب اور بے سہارا آدمی برسوں سے انصاف کےلیے دربدر ہورہا ہے۔ وہ سارے باغبان بھی نکال دیں جنہوں نے خراب پھل پیٹیوں میں بھر کر بیچ دئیے اور وہ مزدور بھی نکال دیں جنہوں نے کسی خوف خدا کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے آنکھیں بند کرکے یہ سب کیا۔
وہ سارے ریڑھی والے بھی نکال دیں جو قیمت صاف اور بہترین پھل سبزی کی لیتے ہیں اور چپکے سے ایک آدھ گلا سڑا پھل بھی شاپر میں ڈال دیتے ہیں۔ دیہاڑی دار وہ مزدور بھی نکال دیں جو تین دن کے کام کو ہفتے بھر تک لے جاتے ہیں، تاکہ ان کی مزدوری بنتی رہے۔ وہ سائیکل، موٹرسائیکل کے پنکچر لگانے والا بھی نکال دیں جو صاف ٹیوب پر بھی دو تین پنکچر لگادیتا ہے۔ میڈیکل والے تو سارے ہی نکال دیں جن کو مرتا مریض نہیں بلکہ چلتا پھرتا ہزاروں لاکھوں کا بل نظر آرہا ہوتا ہے۔ وہ سارے اسکول والے بھی نکال دیں جنہوں نے تعلیم کو کاروبار بنا کر بچوں کے مستقبل کا سودا کردیا ہے۔ وہ سارے ماں باپ بھی نکال دیں جو سرکار سے جواب تو مانگتے ہیں لیکن بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھانا گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ سارے ایزی لوڈ والے بھی نکال دیں جو ایزی لوڈ کرتے ہوئے ایک روپیہ کم لوڈ کرتے ہیں۔ وہ تمام استاد بھی نکال دیں جو تنخواہ تو لیتے ہیں لیکن اسکول نہیں جاتے۔ وہ سارے سرکاری و غیر سرکاری ملازم بھی نکال دیں جو سارا سارا دن دفاتر میں ہوتے ہیں، لیکن کام کرنا ان کے لیے موت ہوتی ہے۔
خیر سے سوشل میڈیا والے تو سارے ہی نکال دیں، جن کےلیے چند سیکنڈ کی خبر دنیا جہاں کی ہر چیز سے اہمیت رکھتی ہے اور ہر جھوٹ وہ بنا شرمندہ ہوئے بول لیتے ہیں اور دوسرے کی عزت اچھالنے کو آزاد میڈیا کا حق سمجھتے ہیں۔
یہ سارے وہ لوگ ہیں جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی دانست میں یہ سبھی ملک کے مظلوم ترین لوگ ہیں، جن پر برسوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے مظالم ہورہے ہیں اور ایسوں کا خیال ہے کہ ان پر ظلم کی واحد وجہ ملک کی اشرافیہ ہے۔ جس دن اس ملک سے امیر ختم ہوگیا، اقتدار اور طاقت ان کے ہاتھ آگئی، اس دن ملک میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
یہ سب لوگ کسی نہ کسی طرح سے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں، لیکن مجال ہے کہ آپ ان سے کہیں اور یہ مان بھی جائیں۔ ابھی اخلاقی دیوالیہ لوگوں کا ذکر تو آیا ہی نہیں۔ کیونکہ اس کے بعد تو شائد صرف فرشتے فہرست میں باقی رہ جائیں گے۔
آج کے پاکستان کا شائد ہی کوئی شہری اخلاقی دیوالیہ پن کی لسٹ سے باہر ہو۔ مجھے بھی دیکھنے کی خواہش ہو گی۔ باقی سب کو چھوڑتے ہوئے صرف بہوؤں پر ظلم کرتی اور بیٹوں کو شہ دیتی ماؤں، پڑوسیوں سے بے خبر لوگوں اور بچوں کو جھوٹ سکھاتے ماں باپ کو ہی گنا جائے تو گنتی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
اب آپ ریاست مدینہ کےلیے ووٹ دینے والے پونے دو کروڑ لوگوں میں سے ان تمام مالی اور اخلاقی مجرموں کو نکالیں تو فہرست میں رہ جانے والے نام انگلیوں پر نہیں بلکہ پوروں پر ہی گن لیے جائیں گے۔ بائیس کروڑوں لوگوں کے ملک میں ریاست مدینہ کے حقدار شہریوں کی تعداد صرف پوروں پر گنی جائے تو میرا یہ سوال ہے کہ پھر ایسی ریاست کس لیے تشکیل دی جائے اور کس طرح تشکیل دی جائے؟
کیا اس دفتر کے مالک کی طرح میں بھی ان تین چار لوگوں سے یہ سوال نہ کروں کہ اچھا تو اب بائیس کروڑ کے ملک میں آپ تین چار لوگوں کو ریاست مدینہ چاہیے تو کیا آپ کےلیے بنا بھی دی جائے؟
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ریاست مدینہ کا خواب دیکھنا اور اس پر بات کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ کسی کےلیے یہ سیاسی بیان ہوسکتا ہے اور کسی کےلیے ذہنی اور جذباتی لگاؤ۔ لیکن کیا اپنے آپ میں ہم اس قدر سچے اور اچھے ہیں کہ ریاست مدینہ کے دروازے پر کھڑے ہونے کے قابل اور اہل ہوں؟ کیا ہمارے ضمیر میں ابھی اتنی جان ہے کہ ہم خود کو ریاست مدینہ کا شہری کہلوانے کا فخر حاصل کرسکیں اور اگر ہمارے ضمیر میں اس قدر جان ہے تو ہمارے جسم میں اس قدر بے غیرتی اور بے حسی کیوں ہے؟
ریاست مدینہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ تاریخ میں یہ ایک بار ہوچکا ہے دوسری بار ہونا ناممکن نہیں۔ لیکن کیا صرف باتیں کرنے سے ہی تاریخ کو دہرانا ممکن ہوسکے گا یا آج ریاست مدینہ کے خواہش مند کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے؟
کیا آج ہم اپنے کاروبار میں بھائی کو شریک کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم پہلے اپنے پیاسے بھائی کو پانی پلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا کسی گناہ کے ہوجانے پر خود عدالت میں پیش ہونے کی جرأت ہم میں موجود ہے؟ ریاستیں نہ یونہی تشکیل پاتی ہیں اور نہ یونہی کسی کو اپنی شہریت دیتی ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ریاست مدینہ کی تشکیل اور اس کی شہریت کےلیے کیا کرتے ہیں۔ تاریخ ہمارے جواب، افعال اور کردار سے آنے والی نسلوں کو خود ہی آگاہ کردے گی اور تب دوسرے پلڑے میں رکھے ہوئے ہمارے بیان، وضاحتیں اور مجبوریاں یہ بتانے کےلیے کافی ہوں گی کہ لوگوں کے ہجوم اور قوم میں کیا فرق ہوتا ہے اور یہ کہ ریاستیں تو بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں لیکن ریاست مدینہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے کسی بھی مسلمان کے کردار اور افعال کا فرق جان سکتے ہیں اور پچھلی ایک صدی میں کوئی بھی اس کسوٹی پر پورا نہیں اترا ہے۔
دعا ہے کہ اب ریاست مدینہ کے خواب دیکھنے والے اپنے اعمال میں بھی اس کسوٹی پر پورا اتر سکیں اور یہ ریاست صرف چند لوگوں کےلیے نہ ہو بلکہ لاکھوں کروڑوں اس کے شہری ہوں۔