احتساب مشرف دور سے کیوں نہیں؟

0
711
1717037-musharraf-1561356777-329-640x480

گیارہ جون، ادھر قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا، ادھر اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم رات قوم سے خطاب کریں گے۔ خیال تھا کہ وزیراعظم اپنے خطاب میں بجٹ میں عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیں گے کہ گھبرانا نہیں، بس ایک دو سال میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ مگر یہ کیا۔۔۔ ایک تو وزیراعظم کے خطاب میں تکنیکی مسائل، دوم، بجٹ سے ہٹ کر وزیراعظم کی تان ایک بار پھر سابقہ حکومتوں بلکہ سابقہ ’’عشرۂ جمہوریت‘‘ پر ٹوٹی اور انہوں نے 10 سال میں ملکی قرضہ 24 ہزار ارب تک پہنچنے کا ذمے دار سابقہ دو حکومتوں، یعنی اپنی اپوزیشن کو ٹھہرایا اور قرضوں کی تحقیقات کےلیے اپنی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان کردیا کہ جس میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ نیز کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ عوام کے پیسے کا غلط استعمال تو نہیں ہوا۔ غیر ملکی سفر اور بیرونِ ملک علاج پر آنے والے اخراجات کی بھی تحقیقات ہوں گی۔

اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کی سربراہی پر اعتراضات اٹھائے گئے تو حکومت کو بھی خیال آ گیا اور بعدازاں جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں کمیشن 2008 سے 2018 تک لیے گئے قرضوں، ان ادوار میں شروع ہونے والے میگا پروجیکٹس اور ٹھیکوں کی تحقیقات کرے گا۔ علاوہ ازیں کمیشن اعلیٰ حکام اور ان کے خاندان کی جانب سے قومی خزانے کو ذاتی استعمال میں لانے کی بھی تحقیقات کرے گا۔ جبکہ کمیشن کو فرانزک آڈیٹرز اور عالمی سطح کے ماہرین کو کمیشن میں شامل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہر نئی آنے والی حکومت تمام تر خامیوں کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال کر خود کو عوامی عدالت میں سرخرو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی الزام تراشیاں تمام حکومتوں کی مشترکہ قدر رہی ہے۔ کسی بھی دورِ حکومت کا مطالعہ کرلیا جائے، ’’ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، سابقہ حکومت نے خزانہ خالی کر دیا ہے، ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، معیشت تباہ حالی کے دہانے پر ہے، ملک دیوالیہ ہونے والا ہے‘‘ جیسے جملے ہر دور میں ملیں گے۔
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حوالے سے ان باتوں کو عوامی سطح پر کچھ تائید اس وجہ سے حاصل ہے کہ عمران خان روزِ اول سے یہی باتیں کہہ رہے تھے۔ کس حد تک سچ، کتنی جھوٹ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ مگر میرے خیال میں اب جبکہ زمامِ کار ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، کمیشن بن کر سچ جھوٹ سامنے آجانا چاہئے۔ سب کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا چاہئے، تاکہ سیاست دانوں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہیں خوامخواہ نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کی بھی حقیقت کھل جائے۔

اپوزیشن کی طرف سے ایک اعتراض تو یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت اپنا ’’بدترین دور‘‘ بھی اس میں شامل کرے، تاکہ پتا چل سکے کہ حکومت نے جو ’’تاریخی قرضہ‘‘ لیا ہے، وہ کہاں گیا۔ میرے خیال میں اس مطالبے کے تسلیم کیے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دوسروں سے حساب مانگنے سے قبل تحریک انصاف حکومت کو اپنے لیے گئے قرضوں کا حساب سب سے پہلے پیش کرنا چاہئے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق گزشتہ 11 ماہ کے دوران تحریک انصاف حکومت نے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرض لیے ہیں۔ ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کیش ڈپازٹ کی صورت میں لیے گئے 5 ارب ڈالر شامل نہیں۔ حکومت نے صرف مئی کے مہینے میں مشرق وسطیٰ اور یورپ کے بینکوں سے 54 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا کُل قرضہ تقریباً سو ارب ڈالر ہے۔

اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا حجم 99 ارب 31 کروڑ ڈالر ہے، جبکہ اکتوبر 2018 میں پاکستان کے ذمے 95 ارب 34 کروڑ ڈالرز کے قرضے واجب الادا تھے۔

اپوزیشن کا دوسرا مطالبہ ہے کہ صرف انہی کا احتساب کیوں ہورہا ہے؟ پرویز مشرف کا دور بھی اس میں شامل کیا جائے۔ اگر پرویز مشرف کا دور بھی شامل کرلیا جائے تو اس سے پیچھے کا عشرۂ جمہوریت یعنی 1988 سے 1999 کا دور بھی اس میں شامل ہوجائے گا، کیونکہ اس وقت انہی دو سیاسی جماعتوں کی حکومت تھی جنہوں نے 2008 سے 2018 تک ملک پر حکومت کی۔

اگر قرضوں کی بات کی جائے تو تفصیلات کے مطابق پاکستان نے پہلا غیر ملکی قرضہ 1950 میں 145 ملین ڈالرز کا پانچ سال کے لیے لیا تھا، جبکہ پہلی مرتبہ 1958 میں آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور قرضوں پر مشتمل 21 پیکیجز لیے۔ تاہم مشکل شرائط کے باعث 21 میں سے 11 پیکیج پورے نہیں ہوسکے۔

1960 میں یہ قرضے 585 ملین ڈالرز تھے۔ دسمبر 1971 میں غیرملکی قرضے 3 ارب ڈالرز تھے۔ جون 1977 تک یہ قرضے 6.3 بلین ڈالرز ہوگئے۔ 1984 تک پاکستان نے 1.6 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضے حاصل کیے۔ آج آپ جنرل ضیاء الحق کو جیسے مرضی یاد کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ 1980 میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں 2 ارب ڈالر کا بیرونی قرض لیا گیا جو انہی کے دور میں واپس بھی کیا گیا۔ اُن کے دور میں افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی خاصی ریل پیل تھی، اس لیے انہیں مزید قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد ’’عشرۂ جمہوریت‘‘ شروع ہوا۔ اس دور میں ڈالر 18 روپے کا تھا۔ دسمبر 1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو نے عالمی اداروں سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے، جو 1990 اور 1992 میں ختم ہوئے۔ پروگرام ختم ہونے سے مراد یہ کہ قرض واپس کرنے کی مدت ختم ہوئی، مگر قرض واپس نہ کیا گیا۔ اسی طرح نومبر 1990 میں نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت شروع ہوا۔ انہوں نے 1993 میں ایک ارب ڈالر کے قریب بیرونی قرض لیا۔

1994 میں پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا پھر دروازہ کھٹکھٹایا گیا، اب قرض واپس کرنے کے بجائے پاکستان عالمی ساہوکاروں کے چنگل میں پھنس چکا تھا اور اصل رقم کے بجائے محض اوپر کا سود ادا کرنے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ اسی ڈگر پر دونوں مقتدرہ جماعتوں نے آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے 1995 سے 1999 تک 3 پروگرام لیے جو وقت سے پہلے ہی فلاپ ہو گئے۔ اس طرح 1999 تک پاکستان 39 ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ اب پاکستان سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا اور دیوالیہ ہونے کے قریب تر تھا۔ پہلے ایٹمی دھماکوں کے باعث کچھ اقتصادی پابندیاں لگیں، پھر سوا سال بعد رہی سہی کسر 1999 میں جنرل مشرف کے مارشل لا نے نکال دی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کےلیے قرض کے دروازے بند کردیئے۔ اسے مشرف کی قسمت کہیں یا پاکستان کی کہ اسی دوران نائن الیون کا سانحہ ہوا اور عالمی منظرنامہ تبدیل ہونے سے پاکستان ایک بار پھر سب کا مرکزِ نگاہ بن گیا۔ دنیا کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی اور عالمی پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔

1999 اور 2000 کے اقتصادی جائزے کے مطابق جنرل مشرف نے پیرس کلب کے ساتھ معاہدہ کیا۔ کنسورشیم کو قرضوں کی ری شیڈولنگ پر راضی کیا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اسی دور میں پاکستان سود کے علاوہ اصل زر میں سے بھی 5 ارب ڈالر کی رقم واپس کرنے کے قابل ہوا۔ یوں 39 ارب ڈالر کا قرضہ 2008 میں کم ہوکر 34 ارب ڈالر رہ گیا۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ احتساب مشرف دور سے کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب یہیں مل جاتا ہے کہ کیا مشرف دور کو قرضوں کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرکے اس بات کا حساب لیا جائے کہ اس نے ملک کا قرضہ کم کیوں کیا؟ اس نے 5 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیوں کیا؟

اسی دور میں ”منصوبہ 2020“ بھی بنایا گیا، جس کے مطابق 2020 تک ملک کے تمام قرضے چکانے کا پروگرام تشکیل دیا گیا، مگر ایک بار پھر ملک ’’جمہوریت‘‘ کی نذر ہوگیا اور عشرۂ جمہوریت شروع ہوگیا۔ 1999 میں ڈالر 52 روپے کا تھا جو 2008 کے انتخابات کے وقت 62 روپے کا تھا۔

2008 سے 2013 تک کے پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے پر بیرونی قرضہ 59 ارب ڈالر تھا، یعنی پیپلز پارٹی نے پاکستان کو 25 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ 2013 میں نون لیگ کا روشن دور شروع ہوا، جس کے اختتام پر بیرونی قرضہ 93 ارب ڈالر تھا، یعنی 34 ارب ڈالر کا قرض صرف اسی دور میں لیا گیا، یعنی اوسطاً چھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا قرض سالانہ لیا گیا۔ اس حوالے سے اپوزیشن بالخصوص نون لیگ کا تحریک انصاف پر یہ اعتراض درست ہے کہ تحریک انصاف اب تک سب سے تیزی سے قرضے لینے والی جماعت ہے، کیونکہ تحریک انصاف اپنے ابتدائی دس ماہ میں ساڑھے 9 ارب ڈالر کا قرض لے چکی ہے۔ اگر تحریک انصاف اسی رفتار سے چلتی رہی تو تحریک انصاف اپنے اقتدار کے آخر پر ملک کو کم و بیش 57 ارب ڈالر کا مزید مقروض کرچکی ہوگی اور پاکستان کا مجموعی قرضہ 150 ارب ڈالر کو چھو رہا ہوگا۔

نون لیگ نے جولائی 2016 سے جنوری 2017 کے سات ماہ میں 4.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے۔ جس میں سے ایک ارب ڈالر سکوک بانڈ کی فروخت سے حاصل کیے اور ان بانڈز کو فروخت کرنے کےلیے لاہور اسلام آباد موٹر وے کو ضمانت کے طور پر گروی رکھوایا۔ اگلے مرحلوں میں دیگر موٹرویز سمیت، ملک کے تمام ریڈیو اسٹیشن اور اہم عمارتیں عالمی منڈی میں گروی رکھوائی گئیں، تاکہ قرض لیا جاسکے۔ یوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے صرف 10 سال کے دوران مجموعی طور پر پاکستان کو 59 ارب ڈالر کا مقروض کیا، جبکہ اس سے پہلے کے 60 سال میں پاکستان کُل 34 ارب ڈالر کا مقروض تھا۔

یہاں مقامی یا اندرونی قرضوں کو قصداً نظر انداز کیا جارہا ہے، وگرنہ اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ مشرف دور سے پہلے تک یہ قرضہ 3 ہزار ارب روپے تھا جو آج 20 ہزار ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تقریباً 6 ہزار ارب روپے، جبکہ نون لیگ نے 9 ہزار ارب روپے کے اندرونی قرضے لیے۔ اسی طرح مشرف دور میں ہر پاکستانی 40 ہزار روپے کا مقروض تھا، پیپلزپارٹی کے دور میں 80 ہزار روپے کا، نون لیگ دور میں ڈیڑھ لاکھ روپے اور آج تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

آئین کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہئے، تاہم مسلم لیگ نون کے پانچ سال مکمل ہونے پر قرضے جی ڈی پی کا 70 فیصد سے زائد ہوچکے تھے، جو اب یقیناً مزید بڑھ چکا ہے۔ حالیہ پیش کیے جانے والے سوا سات ہزار ارب روپے کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے جبکہ قرضوں اور سود کی ادائی کے لیے 3 ہزار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی نصف کے قریب بجٹ محض قرضوں اور سود کی ادائی کےلیے خرچ کردیا جائے گا۔ پھر گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here