محمد مرسی مصر میں جمہوریت کا وہ پہلا باب ہے جس میں قید بامشقت، غداری کے الزامات، مقدمات، کرب اور تضحیک کے سوا کچھ تحریر نہیں۔ تین دہائیوں پر مشتمل آمریت کے خلاف جنوری 2011 میں قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد نے احتجاج کیا، حسنی مبارک عوام کے شدید دباؤ کے بعد مستعفی ہوئے اور مصر میں کم و بیش 30 سال بعد عوام کی منتخب حکومت نے حلف اٹھایا۔ محمد مرسی مصر کے پہلے آزاد جمہوری صدر تھے مگر بد قسمتی سے یہ اختیار اور اقتدار ایک سال بعد ختم ہو گیا۔ جولائی 2013 میں اس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبدالفتح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
تختہ الٹے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا، پھر مقدمہ چلا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے محمد مرسی کو مظاہرین کو قتل کرنے اور جیل توڑنے کے جرم میں 20 سال کی سزا سنائی۔ وہ تاحیات قید زندان میں رہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ محمد مرسی عدالت میں پنجرے نما سیل میں لائے گئے۔ وفات سے قبل محمد مرسی نے جج کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا، انہوں نے خود پر جاسوسی کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔ بیس منٹ تک چیخ چِیخ کر فاضل جج کو فوجی سازش کا شکار ہونے اور اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے رہے۔ پھر دھڑام سے زمین پر گرے اور جان سے گئے۔ انہیں طورہ جیل کے اسپتال میں غسل دیا گیا، جیل کی چار دیواری میں ہی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں نہ خاندان کا کوئی فرد شریک ہوا نہ جماعت کے اراکین، اور نہ دوست احباب۔
اس جنازے کے شرکا کی تعداد اور ماحول کم و بیش ویسے ہی ترتیب دیا گیا جیسے پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی جبکہ محمد مرسی کو قتل اور غداری کے الزام میں جان سے گزرنے تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اب یہ اچانک موت طبعی ہے یا غیر طبعی؟ کسی کو اس کی بھنک پڑنے سے بھی پہلے کفن دفن کر دیا گیا۔
گزشتہ کئی روز سے خبر گردش میں ہے کہ شریف خاندان اور اس کے کچھ قریبی حلقوں کو خدشہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی اسپتال میں نواز شریف کو علاج کے نام پر قتل کیا جا سکتا ہے جس کے بعد نہ کوئی شہادت ہوگی اور نہ ہی کوئی مدعی بن سکے گا۔ محمد مرسی دوران قید شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ کئی بار عدالت میں دوران سماعت وہ بیہوش ہوئے۔ میاں صاحب کو جیل میں ہی تین بار ہارٹ اٹیک ہونے کی خبر مریم نواز دے چکی ہیں۔
انہیں جو بیماریاں برسوں سے لاحق ہیں، ان کی تفصیل بھی بذریعہ میڈیکل رپورٹ سامنے آچکی ہے۔ جمہوری نظام کی تاریخ میں میاں صاحب اپنے پہلے دور میں ایوان سے بے دخل اور دوسرے دور میں ملک بدر ہو چکے ہیں۔ مگر اب نہ تو کوئی آمر براہ راست ملک کا نظام چلا رہا ہے، نہ کوئی من گھڑت مقدمہ ان کی جان کے درپے ہے۔ بظاہر ہمارے ملک کی عدلیہ کسی بھی عدالتی قتل اور ملک کے طاقور ادارے، براہ راست وزیراعظم ہاؤس پر ٹینک چڑھانے سے تائب ہو چکے ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کے گزشتہ دس سال اس توبہ کا چھوٹا سا ثبوت ہیں۔
پھر میاں صاحب کی جان کو خطرہ کس سے ہے؟ اور یہ خدشہ کیوں ہے؟ میاں صاحب اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں سزا بھگت رہے ہیں۔ میاں صاحب قوم سے دو مرتبہ خطاب اور ایوان میں اپنے اثاثوں کی ایک ایک تفصیل اور ذرائع بتانے کا عہد کرچکے تھے۔ پونے دو سال تک چلنے والے پاناما مقدمے کا حاصل وصول ایک قطری خط اور گارڈ فادر، سسلیئن مافیا جیسے القابات تھے۔ گویا اس مقدمے نے عدالتوں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا۔ میاں صاحب خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ یوں یہ سلسلہ اتنا طویل ہوا کہ احتساب شریف بردران کے بعد زرداری صاحب کو بھی اڈیالہ جیل لے گیا۔ اب ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا منہ زور ماضی ہے تو دوسری جانب اہل سیاست کی مالی بدعنوانی کے جیتے جاگتے قصے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ تحریک انصاف کی جمہوری حکومت منتخب تو ہے لیکن انتخاب مشکوک ہے۔
ملک کے تمام ادارے بشمول حکومت اس وقت جو کام دلجمعی سے کررہے ہیں وہ اپوزشن کو سینگوں سے پکڑنے کا ہے۔ زرداری صاحب پر جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے کی چارج شیٹ طویل تر ہے۔ اس مقدمے میں ملوث زرداری صاحب کے کئی قریبی دوست دھرے جاچکے ہیں؛ اور ہمشیرہ نظر بند ہیں۔ یہی معاملہ میاں صاحب کا ہے۔ ان کی حکومت کے سابق وزیر خزانہ اشتہاری، چھوٹے بھائی اور دختر ضمانت پر ہیں۔ اب تو دونوں جماعتیں پلی بار گین یعنی ’’کچھ دے دلا کے‘‘ جیل سے باہر آنے کےلیے تیار ہیں۔ ایسے میں کسی این آر او کی کوئی وقت نہیں۔ زرداری صاحب کا دوسرا گھر جیل ہے۔ اُدھر میاں صاحب کا سیاسی فائدہ اسی میں ہے کہ جیل رہ کر مریم نواز کو سیاسی جانشینی سونپی جائے۔ خلائی مخلوق کی سازش اور سیاسی انتقام کا بیانیہ مریم نواز کی سیاسی تحریک کو اتنا مضبوط کر دے جو بہ آسانی حکومت وقت کی جڑیں کھوکھلی کرسکے۔
ہم اپنا موازنہ ترکی، مصر، ایتھوپیا یا کسی بھی ایسے ملک سے نہیں کرسکتے جہاں منتخب جمہوری نمائندوں پر ظلم ستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوں، کیونکہ یہاں بگاڑ آوے کے آوے میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ ایوان کی نگہبان بننے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ عدلیہ کا معیار انصاف کم اور اخبار کی شہ سرخی زیادہ ہے۔ سیاستدان کا ملکی خزانے سے لگاؤ کم اور ذاتی تجوریوں سے محبت کہیں زیادہ ہے۔
ایسے میں عوام کیا کھوج لگائے کہ ریاست کی گاڑی کون چلا رہا ہے؟ ڈرائیونگ سیٹ پر کون ہے؟ ووٹ سے آنے والی حکومتیں کتنی بااختیار ہیں؟ پھر ترکی میں طیب اردگان ٹینکوں کو مسل دیں یا مصر میں منتخب صدر کو وقت کا آمر مسل دے تو ہمارا موزانہ کیسا؟ ہم تو اپنی طرز کے انوکھے لوگ ہیں۔