کراچی: نامور ٹی وی اداکارہ و میزبان سعدیہ امام کی جانب سے لگائے جانے والے گانے کی چوری کے الزامات کے جواب میں راحت فتح علی خان کے بزنس ڈائریکٹر نے معاملے کو عدالت لے جانے کا عندیہ دیا ہے۔
دو روز قبل اداکارہ سعدیہ امام نے ایک ٹی وی شومیں انکشاف کیا تھا کہ بالی ووڈ فلم ’’کلیوگ‘‘ کا مقبول ترین گیت ’’جیا دھڑک دھڑک جائے‘‘ جسے راحت فتح علی خان نے گایا ہے اس گیت کے بول دراصل انہوں نے لکھے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ انہیں اس گانے کی شاعری کا کریڈٹ نہیں دیا گیا۔
صرف یہی گیت نہیں بلکہ سعدیہ امام نے کہا کہ فلم ’’لائف ان اے میٹرو‘‘ کے لیے راحت فتح علی خان کا گایا ہوا ایک اورگیت ’’زندگی سفر میں ہے کٹ رہا ہے راستہ‘‘ کی شاعری بھی سعدیہ نے ہی لکھی تھی لیکن بدقسمتی سے اس گانے میں بھی ان کا نام کہیں شامل نہیں۔
اس حوالے سے جب راحت فتح علی خان کی بزنس انتظامیہ سے بات کی گئی تو خان کے بزنس ڈائریکٹرسلمان احمد نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ جب پوری دنیا راحت فتح علی خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی ڈگری ملنے کا جشن منارہی تھی اس وقت مس امام اتنے برس گزرنے کے بعد یہ سب کہہ رہی تھیں۔ سلمان احمد نے مزید کہا اگر ضرورت پڑی تو ہم یہ معاملہ عدالت لے کر جائیں گے اوراگرسعدیہ امام اپنے دعوے پر قائم رہیں کہ ان تمام گانوں کی شاعری انہوں نے لکھی ہے تو انہیں اس بات کے ثبوت فراہم کرنے ہوں گے۔
دوسری جانب گوگل کے مطابق ’’جیا دھڑک دھڑک جائے‘‘ گیت کی شاعری سید قادری نے لکھی ہے اور کوک اسٹوڈیو پروڈیوسر روہیل حیات اور فیصل رفیع اس گانے کے شریک کمپوزرہیں۔ جب کہ ’’زندگی سفر میں ہے کٹ رہا ہے راستہ‘‘ کی شاعری سچن گپتا نے لکھی ہے۔
فیصل رفیع سے جب اس معاملے پر بات کی گئی تو انہوں نے سعدیہ امام کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ گانا بن رہا تھا تو وہ وہاں موجود تھے اور یہ پورا گانا ان کی موجودگی میں تیار کیا گیا تھا۔
سعدیہ امام کا کہنا تھا کہ وہ اورراحت فتح علی خان بہت اچھے دوست ہیں اورانہوں نے اس بارے میں کبھی اس لیے بات نہیں کی کیونکہ وہ اپنے گانے بطور دوست راحت فتح علی خان کو دے چکی تھیں، تاہم یہ ان کی اخلاقیات تھی کہ وہ ان گانوں کا کریڈٹ مجھے دیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
واضح رہے کہ سعدیہ امام کا یہ انٹرویو اس وقت میڈیا کی زینت بنا جس دن راحت فتح علی خان کو موسیقی کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا جانا تھا۔