قدرتی جھرنے، میٹھے پانی کے چشمے، دیودار اور سرو کے درختوں کے بیچ صنوبر کے دیو قامت درخت جن کے آنگن میں انواع و اقسام کے پھول کھلے ہوں۔ جب یہ مناظر بیان کیے جائیں تو آزاد کشمیر کے قدرتی حسن کی تعریف ہورہی ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کا ہر گاﺅں اور علاقہ قدرتی حسن کا بہترین شاہکار ہے۔ رنگ، پھول، حنا، خوشبو الغرض کئی استعارے شعرا اور ادبا نے حسن کو بیان کرنے کےلیے استعمال کیے ہیں، لیکن آزاد کشمیر کی وادی نیلفری، ایک ایسی وادی ہے جس کے حسن کو بیان کرنے کےلیے الفاظ، نشانات اور اجسام ختم ہوجاتے ہیں۔
مظفرآباد سے کم و بیش دو سو چالیس کلومیٹر دور یہ وادی آج تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس وادی کو پرانے وقتوں میں نیلوفر یا وادی کنول کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ کیرن اور بھیڈوری کے پہاڑوں کے درمیان یہ وادی بالکل کنول کے پھول جیسی ہے۔ جس کی ہر پنکھڑی پر پریاں رقص کرتی ہیں۔ وادی پر چاروں جانب بچھی گھاس گویا ہزاروں ایکڑ پر بچھا قالین ہے۔ جس میں جابجا بنفشہ، پتریس،مسلونڑ، رباب اور چت پترہ کے خوبصورت پھول اور ان کی خوشبوئیں پھیلی ہیں۔ وادی میں خودرو پھولوں کی ڈالیاں پریوں کے پروں میں سجے خوبصورت پنکھوں جیسی محسوس ہوتی ہیں۔
اس وادی کا بے پایاں حسن دیکھ کر انسان تو کیا، فرشتے بھی اپنا ہوش کھو بیٹھیں۔ اگر اس وادی میں ادیب بستے تو انہیں یہاں پرستان کا سا گمان گزرتا۔ موسم سرما میں وادی کسی ناراض حسینہ کی طرح برف کی سفید چادر کا گھونگھٹ اوڑھ لیتی ہے، جبکہ بہار میں پھول اور سبزہ، موسم گرما کے آغاز ہی میں وادی کنول پر بادل اپنا حصار قائم کرلیتے ہیں۔ زمین پر اترے ہوئے بادلوں کی اٹکھیلیاں، معطر ہواؤں کے جھونکے، شریر تتلیوں کا رقص، کیرن پہاڑ سے اترتے یخ پانی کا مدھر ترنم، نیلوفر جھیل کا پراسرار سکوت اور وادی کی رنگین فضاؤں میں جابجا اڑتے پرندوں کی چہکار سے جنت کا گماں ہوتا ہے۔
وادی کنول یعنی نیلوفری چراگاہیں آزاد کشمیر کے ضلع حویلی کہوٹہ میں ہیں۔ راولپنڈی سے حویلی کہوٹہ کا زمینی فاصلہ 120 کلومیٹر ہے۔ جس کےلیے کم وبیش 8 گھنٹے درکار ہیں۔ راولپنڈی سے براستہ راولاکوٹ، ہجیرہ، عباس پور ضلعی ہیڈکواٹر پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ سارا راستہ خوبصورت قدرتی نظاروں سے مالا مال ہے۔ لیکن قدرت کے اصل نظارے فاروڈ کہوٹہ کی وادیوں ہی میں نظر آتے ہیں۔ نیلوفری چراگاہ تک پہنچنے کا سب سے آسان راستہ فاروڈ کہوٹہ سے براستہ جلال آباد، جبی سیداں ہے۔ اگر آپ ضلع کے باہر سے ہیں تو آپ فاروڈ کہوٹہ شہر کو اپنا بیس کیمپ بنائیں۔ علی الصبح فاروڈ کہوٹہ سے براستہ جلال آباد، جبی سیداں آپ نیلوفری کی جانب روانہ ہوں۔ فاروڈ کہوٹہ سے جبی سیداں پختہ سڑک ہے، جس پر کم و بیش پینتالیس منٹ کا سفر ہے، اس کے بعد 9 کلومیٹر کچی سڑک ہے، جس پر جیپ کا سفر ہی بہتر رہتا ہے اور یہ سفر بھی 30 منٹ میں مکمل ہوجاتا ہے۔ سڑک کے اختتام کے بعد آپ کو 6 کلومیٹر پیدل ٹریک پر چلنا ہوگا، جس کےلیے آپ کو کم وبیش دو گھنٹے درکار ہوں گے۔ چاروں جانب سبزہ وادی کے آغاز کی خبر دے گا۔
وادی میں پہلا خوبصورت چھایاں کا کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ یہ اسٹیڈیم بھی قدرتی ہے۔ یہ اسٹیڈیم پہاڑ کے اوپر خوبصورت میدان ہے۔ جس کے دامن میں مین سر کی سرسبز وادی ہے۔ چھایاں کا پہاڑ عبور کرنے کے بعد آپ کا سامنا قدرتی جھیل سے ہوگا۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 7 ہزار 442 فٹ بلند ہے۔ یہاں چند لمحے سستانے کے بعد کیرن پہاڑ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ سفر بھی دو گھنٹے کی دوری پر محیط ہے۔ کیرن پہاڑ سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ بلند ہے۔ اس وادی کا سب سے بڑا پہاڑ بھیڈوری کا پہاڑ ہے، جو سطح سمندر سے 12 ہزار 228 فٹ بلند ہے۔ اس سفر کے دوران انسان تھکان سے ہلکان ہوجاتا ہے۔ لیکن کیرن پہاڑ پر پہنچتے ہی تمام پریشانیاں ہوا ہوجاتی ہیں۔
کیرن پہاڑ کے دامن میں پانی کا ایک خوبصورت چشمہ بھی موجود ہے، جس پر نہانے سے جلدی امراض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ پانی کے اس چشمے کا راستہ انتہائی پرخطر ہے، جس تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ کیرن پہاڑ کی دوسری جانب بھیڈی اور مقبوضہ کشمیر ہے۔ جبکہ اس پہاڑ کے دامن ہی میں پتھرا چراگاہ ہے۔ جس کا جنگل قیمتی جڑی بوٹیوں اور مہنگے درختوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ڈنہ، حاجی پیر کے پہاڑ اور درہ کی چراہ گاہ بھی اس پہاڑ کے شمال مغربی دامن میں واقع ہے۔وادی کنول کی تفریح کے دوران احتیاطی تدابیر بھی لازمی ہیں۔
راولاکوٹ سے فاروڈ کہوٹہ، یا باغ سے فاروڈ کہوٹہ جاتے ہوئے آپ اپنا بیس کیمپ شہر ہی میں بنائیں، کیوں کہ وادی میں رہائش کےلیے کوئی ہوٹل دستیاب نہیں ہے۔ فاروڈ کہوٹہ سے جیپ کے ذریعے سفر کریں، کیوں کہ دیگر گاڑیاں صرف جبی سیداں تک ہی معاون ہوسکتی ہیں۔ سولی شہر سے کھانے پینے کی اشیا ہمراہ لے لیں، راستے میں آپ کو معیاری اشیا دستیاب نہیں ہوں گی۔ وادی کے سفر کے دوران جوتوں کے انتخاب میں احتیاط کریں، کیوں کہ پیدل ٹریک چھوٹے چھوٹے پتھروں پر مشتمل ہے، جن پر پھسلنے کے خطرات رہتے ہیں۔ گرم کپڑے، چھتری یا چادر ساتھ رکھیں، کیوں کہ وادی میں موسم کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ اپنا سامان مختصر رکھیں، تاکہ آپ کو سفر کے دوران دشواری نہ ہو۔
اگر آپ نے وادی کے حسن سے پوری طرح لطف اٹھانا ہے تو جھیل پر کیمپ لگائیں اور دو روز تک اس وادی میں قیام کریں۔ اپنے سامان کےلیے مقامی افراد کی مدد سے گھوڑوں اور خچروں کو استعمال کریں۔ سڑک سے وادی تک ایک خچر 3 سے 5 سو تک باآسانی مل جاتا ہے۔
نیلے نیلے پھولوں اور چاروں جانب پھیلے سبزے، ٹھنڈے میٹھے پانیوں پر مشتمل اس وادی میں طلوع آفتاب اور غروب کا منظر انتہائی محسورکن ہوتا ہے۔ وادی نیلفری ایک چراگاہ ہے، جہاں مختلف علاقوں سے لوگ اپنے مویشیوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ رات گئے جب مویشی اپنے ٹھکانوں پر لوٹتے ہیں یا علی الصبح وادی میں جاتے ہیں، یہ منظر دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ بھانت بھانت کی آوازیں اور جانوروں کی آنکھوں میں امید ویاس کا پیغام مایوسی کے شکار حضرت انسان کو جینے کا ہنر دیتا ہے۔
سیاح اگر قدرتی ماحول سے لطف اٹھانے چاہتے ہیں تو کم از کم دو روز تک وادی میں ضرور قیام کریں۔ موسم گرما میں اگر آپ تفریح کےلیے جانا چاہتے ہیں تو نیلفری یا وادی کنول میں ضرور جائیں۔ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ وادی میں سہولیات نہ ہونے کے باوجود روزانہ ہزاروں افراد یہاں تفریح کےلیے جاتے ہیں جو کہ اس وادی کے حسن کےلیے مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔