نیویارک: لال بیگ کی سب سے عام پائی جانے والی قسم جرمن لال بیگ ہے جو پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اب ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اب یہ کیڑا کئی دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہوئے مزید ناقابلِ شکست ہوتا جارہا ہے۔
پوردوا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل شارف اور ان کے ساتھیوں نے لال بیگ پر یہ تازہ تحقیق کی ہے۔ انہوں نے چھ ماہ تک لال بیگ کو اپنی تجربہ گاہ میں رکھا اور انہیں مارنے والی مشہور دوائیں استعمال کیں لیکن وہ نہیں مرے۔ اس کے بعد کئی خطرناک دواؤں کو قوت بڑھانے کےلیے باہم ملایا گیا لیکن اس پر بھی لال بیگ زندہ سلامت رہے۔
سب سے اہم خبر یہ ہے کہ اس سے اگلی نسل کے لال بیگ مزید سخت جان ہونے لگے اور ان میں کیڑے مار دواؤں اور لال بیگ تلف کرنے والے زہروں کے خلاف مزاحمت مزید چھ گنا بڑھ گئی۔
’اب یہ حال ہے کہ لال بیگ ایک وقت میں کئ حشرات کش دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کررہے ہں اور کسی کیمیائی عمل سے انہیں ختم کرنا محال ہوچکا ہے،ـ‘ انہوں نے کہا۔
چھ ماہ تک سائنسدانوں نے کئی درجوں، زمروں اور اقسام کی کیڑے مار دوائیں اور اسپرے آزمائے۔ انہیں لال بیگ کی ایک قسم Blattella germanica L پر اسپرے کیا گیا تھا۔ پھر کئی دوائیوں کو آپس میں ملایا گیا لیکن لال بیگ ان سب کو سہہ گئے۔ تجربات کے لیے زندہ لال بیگ انڈیانا اور الینوائے سے پکڑے گئے تھے۔
اسی لیے ماہرین نے کہا کہ اگر آپ پہلے دوا آزمالیں اور پھر لال بیگ پر گرائیں تو اس سے کچھ فائدہ تو ہوگا لیکن اس کا امکان کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے لال بیگ کی آبادی کو محدود رکھنے کی لاکھ کوشش کی لیکن وہ تیزی سے بڑھتے گئے اور دواؤں کو ناکارہ بناتے گئے۔
یہ تحقیق جرنل سائنٹفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہے۔ بسا اوقات تو یہ دیکھا گیا کہ جیسے ہی کیڑے مار دو عدد دوائیں ملائی گئیں۔ لال بیگ ان سے مزید پھلنے پھولنے لگے۔ پھر یہ مزاحمت ان کے بچوں تک منتقل ہوتی گئی اور اگلی نسل مزید سخت جان پیدا ہوئی۔
مادہ لال بیگ تین ماہ میں جو انڈے دیتی ہے اس سے 50 کے قریب لال بیگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین اب ان ادویہ اور کیڑے مار اسپرے کی تلاش میں ہیں جن سے لال بیگ کو آسانی سے تباہ کیا جاسکے۔ اس کا اب بھی ایک حل ہے کہ لال بیگ کو ایسے اسپرے سے ماریں جو دو یا دو سے زائد دواؤں سے بنائے گئے ہوں۔