لندن: ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں عام پائے جانے والی نارنجیوں، انگور اور گاجروں میں کینسر سے لڑنے یا روکنے والے غیر معمولی اجزا پائے جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اجزا ان دواؤں کے مرکبات سے بہت ملتے جلتے ہیں جو آج کینسر کے خلاف استعمال ہورہی ہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پھل کینسر کے خلاف دوا جیسا کام کرتے ہیں۔
امپیریل کالج لندن کے شعبہ کینسر سے وابستہ ڈاکٹر کرل ویسلکوف کے مطابق ایک وقت آئے گا جب ہم ایسی تحقیق کی بنا پر ہر شخص کے لیے ’ذاتی فوڈ پاسپورڈ‘ بنائیں گے تاکہ سرطان کا خطرہ کم کیا جاسکے۔
ڈاکٹر کرل اور ان کے ساتھیوں نے سبزیوں اور پھلوں میں 7900 مختلف سالمات دریافت کئے ہیں اور ان میں سے 110 مالیکیول کینسر کے پھوڑوں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مرکبات بہت حد تک ان مؤثر دواؤں سے ملتے ہیں جو مہنگے داموں دستیاب ہیں اورکینسر کے علاج میں استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں سب سے معروف فلے وینوئڈز ہیں جو کسی پھل اور سبزی کو خاص رنگت دیتے ہیں۔ بعض فلے وینوئڈز اندرونی سوزش کم کرنے، خلوی تقسیم کو روکنے اور سرطانی رسولی خو خودکشی پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ اس طرح یہ سارا عمل کینسر روکنے کے لیے مددگار ہوتا ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں ہرسال کینسر کے لاکھوں افراد اس مرض کے شکار ہورہے ہیں لیکن امریکی کینسر سوسائٹی کے مطابق اس سال مزید 15 لاکھ افراد اس کے شکنجے میں آئیں گے۔ تاہم طرزِ زندگی بدل کر30 سے 40 فیصد کینسروں کے حملوں کو ٹالا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے ماہرین سبزیوں اور پھلوں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ کینسر ربا مرکبات کی اکثریت ان میں موجود ہے۔
امپیریل کالج کے ماہرین نے مزید تحقیق کے لیے پھلوں اور سبزیوں میں پائے جانے والے 7962 مرکبات کا ایک ڈیٹا بیس بنایا اور اسے ایک جدید کمپیوٹر الگورتھم میں داخل کیا۔ اس سے قبل الگورتھم کینسر کے خلاف استعمال ہونے والے 199 دواؤں کی شناخت کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اس کےبعد الگورتھم نے خود بتایا کہ پہلے داخل کردہ 8 ہزار کے قریب مرکبات میں 110 ایسے ہیں جو کینسر سےلڑسکتے ہیں۔ اسی بنا پر ماہرین نے نارنجیوں، انگور اور گاجر کو اس فہرست میں سب سے آگے قراردیا ہے لیکن کینسر روکنے والےدوسرے مرکبات میں گوبھی، سبزچائے، دھنیا اور اجوائن سرِ فہرست ہیں۔
نارنجی میں ایک فلے وینوئڈ ڈائڈیمن بکثرت پایا جاتا ہے اور جنوبی ایشیا سمیت پاکستان کی نارنجیوں میں یہ نعمت بکثرت پائی جاتی ہے۔ جبکہ دھنیے اور اجوائن میں بھی یہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ٹرپینوئڈز، ٹیننس اور کیٹے چن جیسے اجزا پائے جاتے ہیں جو کئی طرح سے کینسر کو روکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سرطانی پھوڑوں کو کم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔