کالونیل دور کا اختتام قریباً صدی کی بات ہوگئی، مگر اسلامی دنیا میں اقتدار کا کھیل سانپ سیڑھی کی صورت محلاتی سازشوں، بغاوتوں اور گروہی تصادم سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فی زمانہ سب سے معتبر نظام حکومت ’’جمہوریت‘‘ کا پودا مسلم ممالک میں ایک ثمر آور درخت تو کیا بنتا، برگ و بار لانے میں بھی ناکام رہا۔
56 اسلامی ممالک میں سے 47 میں ہونے والے الیکشن ایک مستحکم نظام حکومت کے قیام میں معاون ثابت نہ ہوسکے۔ افریقی، ایشیائی مسلم دنیا کو اپنی گردن سے طوق غلامی اتارے ستر سے سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کم وبیش اتنا ہی عرصہ سقوط عثمانیہ کے بعد آزاد عرب ریاستوں کے قیام کو ہوچکا۔ مگر قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال مسلم دنیا کے عوام کی اکثریت بہتر معیار زندگی ، اعلیٰ تعلیم، صحت کی بہترین سہولتوں سے دور غربت، بدحالی اور سماجی ناانصافی کے بدترین دورمیں جی رہی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں میں مسلح جدوجہد کے شاہکار کامریڈوں، نام نہاد جنگجو کمانڈروں نے سب سے پہلے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کےلیے نو آزاد ملکوں میں آمریت کی داغ بیل ڈالی اور ون مین شو نظام حکومت قائم کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے پر قبائلی اختلافات میں گھرے چھوٹے چھوٹے وار لارڈز چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سربراہ بن گئے۔ کچھ طالع آزماؤں نے اغیار کی پشت پر سواری کرتے ہوئے اقتدار کو دوام دینے کےلیے سسٹم کا گلا گھونٹا اور یوں پوری مسلم دنیا ایک صدی کے اندر اندر طاقتور بلاک کے بجائے فرسودہ نظام سے آراستہ اندھیری راجدھانی بن گئی۔
نام نہاد انقلابی لیڈروں، فوجی جرنیلوں کی جانب سے عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکا، اقتدار کے ایوانوں پر شب خون مارنے کا سلسلہ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتامی برسوں میں بھی جاری ہے۔ سوڈان میں حالیہ فوجی بغاوت نے جنرل بشیر کی 30 سالہ آمریت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کو دیوار سے لگا کر ملک کو ایک بار پھر شخصی اقتدار کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ یمن کے آزاد جمہوری نظام کی خانہ جنگی کے ہاتھوں بربادی، مصر میں مرسی کی منتخب حکومت کا گلا گھونٹ کر امریکی کندھوں پر سوار سیسی نظام کی دھینگا مشتی، تیونس میں سیاسی بحران، بنگلہ دیش میں حزب مخالفین کو غداری کے الزام سے داغدار کرنے، پھانسیوں کے پھندوں پر لٹکانے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے سمیت، پاکستان میں ناکام سیاسی نظام اور بدعنوانی کے خاتمے کے نام پر چار بار شب خون تک ناکامیوں کی شاہراہ پر مکمل آزاد، مستحکم اور منصفانہ نظام حکومت کی تلاش کا سفر تاحال جاری ہے۔
19 عرب ممالک میں سے بیشتر کو مطلق العنان بادشاہتوں، فوجی آمریتوں نے معدنی خزانوں کے باوجود محتاجی، محکومی اور دفاع کی فکروں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپی طاقتوں کے در پر سجدہ ریز مسلم حکمران اپنی اپنی سرحدوں میں شعور کی کسی بھی آواز، آزادی اظہار کے کسی بھی نعرے اور کسی بھی منشور کی ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ پر بھی چونک اٹھتے ہیں کہ بے حس حکمرانوں اور پرتعیش انداز حکمرانی کو ہمیشہ گونجتی اور سربلند ہوتی آوازوں سے ہی خطرہ رہا ہے۔ کویت، مراکش، اردن، عمان اور بحرین میں بادشاہت کے سائے تلے پلنے بڑھنے والی نام نہاد جمہوریتیں بھی طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ عرب دنیا میں ووٹ کی طاقت پر صرف لبنان اور فلسطین میں اقتدار کی تبدیلی کی روایت قائم ہے، جو چھوٹے اور پسماندہ ممالک کا قد بڑا کرنے کےلیے یقیناً ناکافی ہے۔ ایسی صورتحال میں ترکی میں پارلیمانی نظام کی صدارتی صورت گری، سیاسی مخالفین کے خلاف بغاوت کچلنے کے نام پر کارروائیاں، شخصی آزادیوں پر قدغن، آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کی کوششوں نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
جمہوریت ڈیڑھ سو سال سے تاحال دنیا کا بہترین نظام حکومت نہ سہی، ایک بہتر نظام حکومت ضرور ہے۔ جو کسی حد تک اسلامی شورائیت کے بھی قریب اور انسانی حقوق کی نگہداشت اور تحفظ کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ یہی نہیں ڈیمو کریٹک سسٹم سچ اور حق کی آواز بلند کرنے کےلیے آزادی اظہار کا واضح سلوگن بھی رکھتا ہے۔ اس سب کے باوجود فی زمانہ رائج الوقت سسٹم سے مسلم دنیا کی نابلدی افسوسناک ہی کہلائی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو جمہوری نظام حکومت پر کوئی اعتراض ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس نظام نے ہمیں فیض یاب نہیں کیا (ووٹ کی طاقت سے وجود میں آنے والا پیارا پاکستان اس سے فیضیابی کی عمدہ مثال ہے) سوال اسلامی اور غیر اسلامی کا بھی نہیں ہے۔ حقیقت میں مسلم دنیا کے طالع آزما اور اقتدار کے لالچی چور دروازوں سے اقتدار میں آنے والوں نے مصر سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش سے سوڈان ہر جگہ سازش کا پرچار کیا۔
یہ طالع آزما کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں دفع کرپشن کے عنوان سے اقتدار کے سنگھاسن پر قدم رنجہ فرماتے اور خونی درندوں کی مانند اپنے ہی معاشرے اور سماج کو نوچ نوچ کر کھاتے رہے۔ ایسے سب جغادری چاہے بادشاہت کا لبادہ اوڑھے ہوں یا جرنیلی وردی زیب تن کیے ہوں، ٹیکنوکریٹس کی بو ٹائی لگائی ہو، مذہبی خلعت تن پر سجائی ہو یا پھر پیرہن جمہوریت میں ہی ملبوس کیوں نہ ہوں، آمرانہ ہتھکنڈوں اور شخصی اقتدار کی ہوس رکھنے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے یہ سب سسٹم کو کمزور کرنے کی روش پر قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب اسپرنگ کے سامنے طاقت کے بڑے بڑے برجوں کے ڈھیر ہوجانے کے باوجود 30، 30 سال سے آمرانہ ہھتکنڈے سہنے والے ممالک آج بدترین خانہ جنگی کا شکار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے جمہوریت کو مختلف خطوں میں مختلف خطرے درپیش ہیں۔ منظرعام پر آنے والی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 71 ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر ڈیموکریٹک سسٹم کمزور، جبکہ 35 میں استحکام کی جانب گامزن رہا۔ عدم استحکام کا شکار ہوتے بہترین نظام حکومت کو درپیش چیلنجز کے باعث انسانی حقوق کی صورتحال برباد ہونے اور آزادی اظہار پر بے شمار قسم کی قدغن لگائے جانے کے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود سماجی استحکام، معاشی خوشحالی، باہمی احترام پر مبنی معاشرے کے قیام کا واحد راستہ فی الحال ڈیموکریسی ہی ہے۔ جو آمریتوں، شخصی حکومتوں اور بادشاہتوں سے نجات دلا کر ترقی یافتہ دنیا کی صف میں ہمیں شان سے کھڑا کرسکتا ہے۔ بس اس کےلیے بدلتے وقت میں نئی نسلوں کے ایمان اور اپنی یقین دہانی کےلیے جمہوریت کا کلمہ ذرا شدت اور بلند آواز سے پڑھنا پڑے گا۔