یہ روز کا معمول تھا کہ جب بھی وہ بچہ اسکول جانے کےلیے نکلتا تو اس کی والدہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتیں اور پھر دو آنے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہتیں ’’یہ دو آنے ہیں، ایک آنہ تمہارے لیے اور دوسرا کوئی بھی ضرورت مند دکھائی دے تو اسے دے دینا۔‘‘ یہ ضرورت مندوں کی خدمت کا وہ درس تھا جو اسے گھر سے ملا اور اس کے بعد اس سبق کو اس نے فقط مقصد حیات نہیں بلکہ زندگی ہی بنالیا۔ اس کی ہر سانس دکھی انسایت، غریبوں کی کفالت، لاواث بچوں کی پناہ گاہ، بے سہارا بچیوں اور عورتوں کو زندگی دیتے گزری۔ 8 جولائی 2016 کو زندگی کا چراغ گل ہوا۔ اس دن کے اخبارات کی شہ سرخی کچھ یوں تھی ’’خدمت، محبت، سچائی دنیا سے رخصت، ممتاز سماجی رہنما و ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔‘‘
دنیا نے انہیں بابائے خدمت، رحمت کا فرشتہ تو کبھی پاکستان کی مدر ٹریسا کا نام دیا۔ مولانا عبدالستار ایدھی 1920 میں بھارتی ریاست گجرات کے علاقہ بانٹوا میں ایک میمن فیملی میں پیدا ہوئے۔ معاشی حالات قدرے غیر مستحکم تھے۔ خاص طور پر والدہ کی بیماری نے انہیں درسگاہ سے نکال کر معاشرہ کے آگے پھینک دیا۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کی اور میٹھادر کراچی میں آکر رہنے لگے۔ 11 برس کی عمر تھی، جب ماں کو فالج ہوا۔ اس عمر میں کیا ملازمت اور کہاں کی نوکری۔ پنیں، دھاگا اور دیگر مصنوعات اٹھائیں اور گلی میں نکل پڑے۔ زندگی بہت بے رحم ثابت ہوئی اور ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔
اس وقت ایدھی صاحب کی عمر 19 برس تھی۔ انہوں نے اپنی والدہ کی بے پناہ خدمت کی۔ اگر ہم ایدھی صاحب کی زندگی دیکھیں تو اس میں ہمیں وہی دکھ دکھائی دیں گے جن کا سامنا کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگ کرتے ہیں۔ جیسے والدین کی وفات، ادھوری تعلیم، انتہا کی غربت، بے بسی اور لاچاری۔ مگر ان لاکھوں کروڑوں میں سے صرف ایک عبدالستار ایدھی تھا جس نے ان مصائب کو بطور چیلنج لیا اوراپنی زندگی کو وقف کردیا ان لاکھوں لوگوں کی مدد کےلیے جن میں یتیم، بیوائیں، ذہنی طور پر معذور، علاج کےلیے سسکنے والے، منشیات سے جان چھڑانے والے شامل تھے۔
1951 میں ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور ایک ڈاکٹر کی مدد سے ایسی ڈسپنسری بنائی، جو غریب اور ضرورت مند مریضوں کو مفت علاج کی سہولت دیتی تھی۔ 1957 میں جب کراچی میں فلو کی وبا ایک آسیب کی طرح پھیلی، عبدالستار ایدھی اسے یوں بیان کرتے ہیں ’’لوگ فٹ پاتھوں پر لیٹے ہوئے تھے، فلو اس بری طرح پھیلا تھا اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا۔ میں نے وہاں بینچ رکھے اور میڈیکل کالج کے چند طالبعلموں کو ساتھ لے کر طبی امداد دینا شروع کردی۔ میری جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ تب میں گلیوں میں امداد کےلیے نکلا اور لوگوں نے دیا بھی۔‘‘
یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ عبدالستار ایدھی نے میٹھادر سے باہر نکل کر خدمات مہیا کیں۔ ان کا جذبہ اور محنت دیکھتے ہوئے کسی کاروباری شخص نے انہیں بیس ہزار روپے بطور عطیہ دیئے۔ جس سے انہوں نے ایک پرانی سی وین خریدی۔ عبدالستار ایدھی صاحب اسے ورکشاپ لے گئے اور ایمبولینس کی شکل دی۔ اس وقت کراچی میں صرف ایک ایمبولینس سروس تھی، جو پورے صوبے میں کام کر رہی تھی، اور اس کے پاس بھی شاید دو گاڑیاں ہی تھیں۔ ایدھی ایمبولینس کا کمال یہ تھا کہ فوری طور پر ہر حادثہ پر پہنچتی اور برق رفتاری سے اپنے فرائض سرانجام دیتی۔
آٹھ ضرب آٹھ کے سائز کی ڈسپنسری نے جب ایدھی فاؤنڈیشن کی شکل اختیار کی تو یہ دنیا کا سب پہلا اور وسیع نیٹ ورک بنا، جس کی بنیاد لوگوں کے عطیات پر تھی۔ پاکستان بھر میں اس کا نیٹ ورک آج بھی کامیابی سے خدمات مہیا کررہا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے فلاحی منصوبہ جات میں اپنا گھر، جھولا، ایدھی ویلیج، ایدھی ہوم برائے حیوانات اور بہت سے سینٹرز ہیں، جن کی بنیاد رنگ و نسل، مذہب اور قومیت پر محدود نہیں ہے، بلکہ انسانیت کی خدمت ہی اس کا مقصد ہے۔ حد سے زیادہ غربت یا گناہ کی وجہ سے لوگوں کو یہ آسان لگا کہ وہ نومولودوں کو، جن میں اکثریت بچیوں کی ہوتی تھی، انہوں نے انہیں کچرے کے ڈھیر یا نالوں کے کناروں پر پھینکنا شروع کردیا۔ ان میں سے بعض کو تو جانور اٹھا کر چیر پھاڑ رہے ہوتے تھے۔ جس کا حل عبدالستار ایدھی صاحب نے یہ نکالا کہ بہت سے جھولے بنوا کر اپنے سینٹرز کے اردگرد رکھوا دئیے جن پر یہ تحریر لکھی تھی ’’قتل نہ کریں، جھولے میں ڈالیں۔ ایک گناہ کرکے دوسرا گناہ کیوں مول لیتے ہیں۔ جان اللہ کی امانت ہے‘‘۔
اس کا یہ فائدہ ہوا کہ لوگوں نے رات کی تاریکی میں ان جھولوں میں بچوں کو ڈالنا شروع کیا۔ جو بعد میں ایدھی سینٹرز لائے جاتے اور ان کی مناسب دیکھ بھال ہوتی۔ عبدالستار ایدھی سے جب کسی نے سوال کیا کہ یہ مولانا کا نام کس طرح ان کے نام کا حصہ پڑا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’اس داڑھی کی وجہ سے۔ جبکہ وہ کوئی بہت بڑے عالم فاضل نہیں ہیں، واجبی سی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘‘۔
ان کی داڑھی اور مخصوس رنگ کے شلوار قمیض نے انہیں سب سے جداگانہ ہی رکھا۔ انہوں نے نہ صرف زندگی بچانے کو اپنا مشن بنایا، بلکہ جب زندگی کا دیا بجھ جاتا اور اس جسم پر لاوارث کا ٹیگ لگا ہوتا، تو یہ ایدھی صاحب ہی تھے، جن کے رضاکار ان اجسام کو اٹھا کر لاتے اور ایدھی ان کی آخری رسومات ادا کرتے۔ اگر مرنے والا مسلم ہوتا تو اسے اپنے ہاتھ سے غسل دیتے تھے۔ ایک وسیع رقبہ قبرستان کےلیے مختص تھا جس میں تدفین کی جاتی اور اس کا ریکارڈ رکھا جاتا کہ اگر اس کا کوئی وارث آئے تو شناخت ہوسکے۔
انسان تو انسان عبدالستار ایدھی نے حیوانات جنہیں ان کے مالکان کسی بیماری کی صورت میں کھلا چھوڑ دیتے تھے، ایسے جانوروں کےلیے ایک شیلٹر بنایا، جہاں پر انہیں نہ صرف رکھنے کا مناسب بندوبست کیا گیا بلکہ ڈاکٹرز کی مدد سے طبی سہولیات بھی مہیا کی گئیں۔
یہ تحریر بھی پڑھیے: عبدالستار ایدھی، انسانی خدمت کی عظیم داستان
عبدالستار ایدھی نام تھا ایک ایسے انسان کا، جس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا ہر سانس لینے والے جاندار کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا، انہیں مشکلات سے نکالنا۔ چاہے وہ کسی بھی نسل، رنگ و روپ، مذہب یا قومیت کا ہو۔ مولانا عبدالستار ایدھی کو نہ صرف پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزازوں سے نوازا گیا بلکہ دنیا نے ان کو انسان دوست جانتے اور مانتے ہوئے بہت سے اعزاز دئیے۔ ان کے مشن میں ان کی زوجہ بلقیس ایدھی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
عبدالستار ایدھی گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ عمر زیادہ ہونے کے باعث ڈائی لیسز بھی ناممکن تھا۔ 92 برس کی عمر میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہوا۔ ان کی نماز جنازہ نیشنل اسٹیڈیم میں ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق تدفین ایدھی ویلیج میں ہوئی۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کے جسم کے اعضا عطیہ کردیئے جائیں اور پہنے ہوئے کپڑے ساتھ میں رکھے جائیں۔ وہ چاہے ہم سے رخصت ہوگئے ہوں مگر ان کا مشن آج بھی اسی طرح جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔