کہا جاتا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور اب کون سی ترقی باقی رہ گئی ہے؟ مگر میں سوچتی ہوں کہ جو دو وقت کی روٹی تک نہ پہنچ سکا اس سے بڑھ کر کیا ناکامی ہے۔ بقول سعادت حسن منٹو ’’خالی پیٹ کا مذہب روٹی ہوتا ہے۔‘‘
بات ہورہی تھی چاند کی۔ اب تو چاند والی بڑھیا جو تن تنہا مالک تھی اپنے چاند کی، وہ بھی اس ترقی سے خائف ہوکر کسی اور نگر جا بسی ہے۔ کیوں کہ حضرت انسان جہاں جائے، اپنا اسٹیٹس ساتھ لے کر جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بتادوں کہ اسٹیٹس ہے کیا؟ سائنسی زبان میں اسٹیٹس کو کنڈیشن کہا جاتا ہے، اُردو میں حالت اور آج کل کے انسان کے نزدیک اسٹیٹس زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اب وہ اسٹیٹس چاہے فیس بک کا ہو یا واٹس ایپ کا، یا پھر انسان کی اپنی جاہ و حشمت کا۔ دیکھا اسٹیٹس ہی جاتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں آپ تبھی اشرف المخلوقات ہیں جب آپ مالدار، کروڑوں کے گھر، گاڑیوں، بنگلوں کے مالک ہیں یا آپ بداخلاق، پرلے درجے کے دھوکے باز، جھوٹ اور مکاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ آپ نے جو کھایا پیا حتیٰ کہ باتھ روم کے برینڈ انٹیریئر کا شو آف کرنا اور لگا دینا اسٹیٹس کہ بھئی ہم ہیں اشرف المخلوقات۔ بن گیا اسٹیٹس۔
اور اگر بات کریں طعام کی تو کیا کہنے! اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلز، ریسٹورنٹ اور ان میں پڑے قیمتی ٹیبلز پر سجے مختلف انواع و اقسام کے پکوان اور پلیٹ میں پڑے صرف چند لقمے، اسپون سیٹ نمایاں اور غذا قلیل نظر آئے گی۔ تو ہوگیا نہ شاندار ڈنر کا اسٹیٹس۔ بھئی ڈائٹنگ بھی تو کرنی ہے۔ اصل خوراک تو غریبوں کا خون چوسنا ہے، جو اپنے لیول سے بھی اوپر موجود ہے، باقی تو اصل کام اسٹیٹس کا ہے جو بن جاتا ہے۔ یہ تو تھی اشرف المخلوقات کے اسٹیٹس کی بات، اب بات کرتے ہیں عام انسان کی جو صرف انسان ہے۔ اور انسان ہونا کوئی اتنی بھی بڑی بات نہیں، کیونکہ انسان کی زندگی سے زیادہ موت سستی ہے۔ عام انسان کا بھی اسٹیٹس ہوتا ہے۔ وہ اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھوک کا اسٹیٹس لے کر گھومتا ہے۔ ہر جگہ چپکاتا ہے بلکہ چلتا پھرتا اسٹیٹس ہے، مگر دیکھنا کوئی نہیں چاہتا۔ بھئ دیکھو میرا بھی تو یونیک اسٹیٹس ہے۔
ارے پاگل تیرا اسٹیٹس کون دیکھے گا؟ تو محبت کر، اچھا سوچ، امید رکھ اور امیر ہونے کے خواب دیکھ، پیٹ بھر کر کھانے، تن کو ڈھانپنے کےلیے موسموں کے حساب سے لباس خریدنے کے خواب، پیزا جو قومی روٹی ہے اور آئسکریم، شیک۔ یہ کھانے کے حسین خواب سجائے زندگی کے رحم دل ہونے کا انتظار کر۔ تب تک اشرف المخلوقات اپنے دلربا اسٹیٹس سے انسانوں کا اور اپنا دل بہلالے۔ ارے بھوک کے اسٹیٹس سے خطرناک کوئی نہیں ہے، جان دے بھی دیتا ہے خودکشی کے طور پر اور لے بھی لیتا ہے انتقاماً۔
بقول پریزیڈنٹ جمی کارٹر ’’ہم جانتے ہیں کہ دنیا زیادہ دیر تک پرامن نہیں رہ سکتی، جبکہ اس کے ایک تہائی لوگ امیر ہوں اور دو تہائی بھوکے‘‘۔
جس ماں کے بچے بھوک سے رو رہے ہوں، باپ بسترِ مرگ پر تڑپ رہا ہو، ماں خود کو سنبھالے گی یا کیا سکھائے گی ان کو؟ وفاداری، پاسداری، اخلاق کے اصول، دین پر کاربند رہنا، تقویٰ اختیار کرنا، صراط مستقیم پر چلنا، صبر کرنا، محنت کرنا؟ کیا سکھائے گی بچوں کو کہ جیسے ہی وہ منہ کھولتی ہے تو بچے سمجھتے ہیں کہ ماں کھانے کے بارے میں کچھ بتانے لگی ہے کہ ابھی کچھ آجائے گا تو دیتی ہوں۔
سوچو کہ ایسے میں کیا ماں کی گود درسگاہ کا کام کرے گی؟ بقول مہاتما گاندھی ’’دنیا میں موجود بھوکے لوگوں کو روٹی کے علاوہ کسی چیز میں خدا نظر نہیں آسکتا‘‘۔
اسی طرح حضرت عمرِفاروقؓ نے فرمایا ’’فقر کفر تک لے جاتا ہے‘‘۔ اور انہوں نے ایسا عہدِ خلافت قائم کیا کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں اُن کا بنایا ہوا قانون لاگو ہے اور وہ ترقی کررہے ہیں۔ تو ہم سب بحیثیت مسلمان کیوں اس کو نہیں اپنا سکتے؟
جب الف اللہ، ب بسم اللہ کے ساتھ ب سے بھوک جڑی ہے تو اس بھوک کے اسٹیٹس کو سمجھیے اور انسان کو اپنے ساتھ اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ دیجیے۔ جب اس ب سے بھوک کو ختم کریں گے تو، پ سے پاکستان کا سفر شروع ہوگا۔ پاکستان میں امن، سکون اور کامیابی ہوگی۔ پاکستان کی ترقی عالمِ اسلام کی ترقی ہے اور الف ب پ ہی کامیابی ہے۔