بھٹو اور وقت کے قیدخانہ میں جھولتا ’پینڈولم‘

0
766
Hanging of Bhutto

’’میں پاکستان کے غریبوں کے حقوق کےلیے اپنی جان بھی قربان کرنے کےلیے تیار ہوں‘‘۔ اور پھر 5 جولائی 1977 کو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بھٹو کو 51 سال کی عمر میں پھانسی نہ دی جاتی تو شاید پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

ہوسکتا ہے کسی طالع آزما کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مارشل لاء لگائے اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نواز شریف کی طرح خود مقدمات میں پھنس کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی، بھٹو کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ اس نے عوام کی اقتدار میں شراکت کا خواب دیکھا، جس کو پورا کرنے کےلیے اُس نے عوام کو اپنی شناخت میں حصہ دیا۔

’’ذوالفقار علی بھٹو ایک نہیں ہے، دو ذوالفقار علی بھٹو ہیں، ایک میں اور ایک آپ‘‘۔ بھٹو نے ننگے پاؤں کسی کو دیکھا تو اس کے ساتھ ننگے پاؤں ہولیا۔ پھٹی قمیض دیکھی تو اپنا گریباں خود چاک کرلیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں بھٹو منافق تھا، اندر سے کچھ تھا، باہر سے کچھ۔ مگر میرا کہنا ہے کہ بھٹو بہادر تھا۔ اس نے اپنے لیے ہمدردی تو دور کی بات، رحم بھی نہیں مانگا۔ بھٹو سے یا تو محبت کرنے والے ہیں یا پھر نفرت کرنے والے۔ جو محبت کرتے ہیں وہ بلا کی محبت کرتے ہیں اور نفرت کرنے والے بھی انتہا کی۔ جبکہ کچھ لوگوں کےلیے بھٹو سے پہلے اور بعد میں وقت جیسے رک گیا ہو۔

ذوالفقار علی بھٹو کو 5 جولائی 1977 کو پہلی دفعہ نظربند کیا گیا اور 29 جولائی یعنی چوبیس روز بعد نظر بندی ہٹادی گئی۔ 3 ستمبر 1977 کو پہلی بار گرفتار کیا گیا اور انہیں 13 ستمبر 1977 کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے اسی عرصے کے دوران ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ ’’اگر میں رہا ہوگیا تو جنہوں نے آئین توڑا ہے ان کے خلاف آرٹیکل چھ لگاؤں گا‘‘۔ اور پھر اس کے بعد 16 ستمبر 1977 جب انہیں تیسری بار گرفتار کیا گیا تو ان پر قتل میں اعانت کا الزام لگایا گیا۔ 24 اکتوبر 1977 کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 18 مارچ 1978 کو سزا ہوئی۔ 18 دسمبر 1978 کو مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا۔ 23 دسمبر 1978 کو سپریم کورٹ نے 4 روزہ سماعت مکمل کی۔ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے سزا برقرار رکھی۔ 24 فروری 1979 کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی اور 24 مارچ 1979 کو سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی۔ جس کے بعد 4 اپریل 1979 کو پھانسی دی گئی۔

مارشل لاء لگائے جانے سے پھانسی کی سزا تک بہت سے ایسے سوالات ہیں، جن کے جواب آج تک نہیں ملے۔ جیسے اسلامی قوانین کے مطابق جس نے کوئی جرم کیا ہو اس کی سزا اسی کو ملنی ہے۔ قتل بھٹو نے نہیں کیا تھا۔ کیا کسی کو اعانت کے جرم میں سزائے موت دی جاسکتی ہے، جبکہ مجرم بھی موجود نہ ہو؟ کیا اس سے پہلے کی تاریخ میں کبھی مجرم کی جگہ کسی اور کو سزا سنائی گئی؟ جب بھٹو کا فیصلہ دینے والے بنچ کے 2 ججز غیر حاضر تھے تو کیا یہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے؟ بھٹو کے حق میں فیصلہ لکھنے والے جسٹس صفدر کو ملک کیوں چھوڑنا پڑا؟ کیا بھٹو کو کسی گواہ کے بغیر سزا دینا انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ ہائیکورٹ سے قبل ماتحت عدالتوں میں بھٹو کا مقدمہ کیوں نہیں سنا گیا؟

میرے خیال میں سندھ کے عوام وقت کے اس قیدخانے میں پھنس کر رہ گئے جو بھٹو سے آگے سوچتا ہی نہیں۔ وہ بھٹو کو “Lone Wolf” کہتے ہیں۔ جو اکیلا غریب کی آواز بنا۔ جیسے بھٹو کسی امید کا نام تھا۔ کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے تحریک اپنے پورے جوبن پر نہیں پہنچی تھی اور سازش کے کینوس پر آخری اسٹروکس نہیں لگائے گئے، اگر اس وقت Lone Wolf اپوزیشن کو منا لیتا تو شائد سولی نہ چڑھتا۔ اگرچہ سازش کا علم بھٹو کو بھی تھا، جس کا اظہار بھی کیا کہ ’’یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں‘‘۔ اور بعد میں بقول جنرل فیض علی چشتی مارچ 1977 میں پیر پگاڑا نے دوران تحریک وزیراعظم ہاؤس تک احتجاج کی دھمکی دی تو سیکیورٹی پر مامور فوجی دستے جن کا کام بغیر اجازت وزیراعظم ہاؤس داخلے پر پابندی تھا۔ انہی فوجی دستوں نے وزیراعظم کو پابند کردیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتے۔ یوں مارشل لاء کی پہلی اینٹ اسی دن رکھ دی گئی تھی، جس پر احتجاجی تحریک کی عمارت کھڑی کردی گئی۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا پھندا آج بھی لاڑکانہ میں پینڈولم کی طرح جھول رہا ہے اور بھٹو کا نام آتے ہی دل بیٹھنے لگتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here