صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اک نئی سمت متعارف ہوئی۔ انقلاب فرانس سے پہلے بھی معاشرہ بکھر رہا تھا۔ غلامی کی عمیق گہرائیوں سے اوپر کو سرکتے ہوئے سر طرح طرح کی سرگوشیوں میں الجھے تھے۔ سرمایہ دار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ اجارہ داروں کے خلاف چہ مگوئیاں ہورہی تھیں۔ حق و باطل میں بحث چھڑ گئی تھی کہ اچانک محروم طبقے کو قدرت نے طاقت دے دی اور ٹینس کورٹ میں بیٹھ کر جبر زدہ فرانسیسیوں نے عہد کیا کہ ہم خاک نشیں اٹھ بیٹھیں کہ وقت قریب آ پہنچا ہے۔
معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ ایک انقلاب، ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ امریکا میں بھی انقلاب سے پہلے جنگ و جدل کا بازار گرم تھا۔ تاج برطانیہ کے زیر سایہ سب کچھ آہستہ آہستہ رواں دواں تھا کہ اچانک شعور کے پردوں میں حرکت آنے لگی۔ بحث و مباحثہ نے جنم لیا تو پھر معاشرہ ٹوٹنے لگا۔ غریب امیر کا فرق بڑھتے ہی کئی طرح کے احساسات بڑھے۔ سوالات نے جنم لیا اور پھر جارج واشنگنٹن نے صدائے حق لگائی کہ یا مجھے آزادی دو یا پھر مجھے موت دو۔
بولیشویک ریوولوشن کا قصہ بھی مختلف نہیں۔ نوجوان طبقہ مارکس کے نظام کا قائل تو تھا مگر اس کی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر حق لینا چاہتا تھا۔ سو اس سچویشن نے معاشرے کو توڑ کر رکھ دیا۔ قدریں، رسمیں اور فرسودہ روایات ہر انقلاب سے پہلے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ امیر شہر کو جھک کر سلام کرنے والے اسے گالیاں دیتے ہوئے گزرتے دکھائی دیے۔ اور یوں روس میں خونیں انقلاب برپا ہوا۔
قدرت جب ایک نظام کی جگہ دوسرا نظام لانا چاہتی ہے تو وہ دقیانوسی سماج کی ہر ایک اینٹ کو ادھر سے ادھر کر دیتی ہے۔ معاشرے کی ہر ایک اکائی تبدیل ہوتی ہے اور اسی کا نام انقلاب ہے۔ آپ انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد وہاں پر بسنے والے ایک ایک فرد کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ جب معاشرہ جمود کی انتہا پر پہنچتا ہے تو پھر قدرت اس میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو ایکٹیو کردیتی ہے۔ پھر کچھ بیہودہ روایات جنم لیتی ہیں اور پھر وجہ انقلاب بنتی ہیں۔ وہ چاہے بچیوں کا زندہ درگور کرنے کا معاملہ ہو یا بچوں کو قتل کرنے کا۔ وقت سر پر لٹکی ہوئی موت کی طرح ہر ایک ظالم کو للکار رہا ہوتا ہے کہ تم ہو فرعون تو موسی بھی ضرور آئے گا۔
2011 کے بعد عرب اسپرنگ کے نام سے مسلم معاشرے میں دراڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آرہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں انقلاب ایران کے بعد طاقت کی دوڑ نے مسلم معاشرے کو باقی دنیا کی نسبت بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر آج تک جمہوریت، خلافت اور بادشاہت کے نام پر رچائے گئے ڈھونگ نے اقتدار، دولت اور طاقت کی ہوس میں معاشرے کو جمود بخشا تھا۔ اپنی تمام تر مذہبی رسوم کا پابند معاشرہ ہر ایک مقدس گائے کو پوجتا رہا۔ مگر معاشروں میں جمود کو دائم حاصل نہیں۔ ہر نظام کی تبدیلی کےلیے معاشرہ جمود سے تغیر کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر آخر کیوں، کب تک، کس لیے جیسے سوال جنم لیتے ہیں۔ مذہب کو سیاست اور سیاست کو مذہب سمجھنے والوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ ایک لاوا پک کر تیار ہوتا ہے اور پھٹ جاتا ہے۔
مسلم معاشرہ اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے باوجود آج بھی کئی فرسودہ روایات میں جکڑا ہوا ہے۔ دوسروں کو حق زندگی دینے والا اسلامی معاشرہ کہیں دہشت گردی کی لپیٹ میں خود زندگی سے ہاتھ دھو رہا ہے، تو کہیں دوسروں کی جان لے رہا ہے۔ علم چند خاموش طبعیت لوگوں کے دلوں میں چھپا بیٹھا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹریول کرنے کےلیے میڈیم کی تلاش میں ہے۔ غلط انفارمیشن درست طریقے سے اور درست انفارمیشن غلط طریقے سے پہنچ رہی ہے۔ اہل اقتدار کا مذہب اور حب وطن کو استعمال کرنے کا ہنر پرانا ہوتا چلا جارہا ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور خواتین کے دل و دماغ تذبذب کا شکار ہیں۔
معاشرہ کسی گھنٹی کی تلاش میں ہے۔ جو انقلاب کے بگل کی مانند بجے اور سب کچھ بدل کر رکھ دیا جائے۔ مُردوں کو پکا کر کھا جانا، مردہ عورت سے زنا جیسا قبیح فعل کرنا، سات آٹھ سالہ بچیوں کا ریپ کرنا، یہ ایک زوال پذیر معاشرے کی نمایاں نشانیاں ہیں۔ ایران کا ایک مہلک ہتھیار بنانے کےلیے عوام کا خون نچوڑ لینا، سعودیہ کا خاشقجی کو قتل کردینا، مصر میں محمد مرسی کا عدالت میں زندگی کی بازی ہار جانا، یہ وہ واقعات ہیں جو ایک جمود زدہ معاشرے میں سوال پیدا کر رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟
وقت کروٹ بدل رہا ہے۔ سوڈان میں ایک بائیس سالہ جواں لڑکی آلہ صالح چٹان ثابت ہورہی ہے۔ پاکستان میں مریم، بلاول اور حمزہ کی صورت میں جوان خون کئی کروڑ رگوں میں دوڑنے لگا ہے۔ یہ وہ دور نہیں رہا کہ آپ نے صرف یہی سنا تھا کہ بھٹو قاتل ہے اور بس۔ اب آپ چور چور کے جواب میں سلیکٹڈ کا لفظ بھی سن رہے ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ معاشرے میں زلزلہ برپا ہونے والا ہے۔
صحیح اور غلط کا تعین مشکل ہوجائے تو دو انتہائیں جنم لیتی ہیں۔ وہ جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو ایک نئی شکل اختیار کرتی ہیں۔ وہ نئی شکل کئ سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ اور جواب صرف ایک ہوتا ہے۔ انقلاب!
تو ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تصادم مسلم معاشرے میں سوالات کو جنم دے گا؟ کیا فرقہ واریت اور رجعت پسندی اب آخری ہچکیاں لے رہی ہے؟ کیا لبرل، سیکولر اور آزادانہ سوچ کو فروغ ملے گا؟ یا پھر امریکا، روس اور اسرائیل اپنے نئے ہتھیاروں کے تجربات مسلمانوں پر ہی کریں گے اور اسلحہ تھما کر نوجوانوں کو لڑنے مرنے کے سوا کچھ نہ کرنے دیں گے؟ ہمیشہ انڈا باہر سے توڑ کر کبھی ہاف فرائی اور کبھی آملیٹ بنا کر کھا جائیں گے یا پھر انڈے کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے اور اچانک انڈا اندر سے ٹوٹے گا اور زندگی جنم لے گی؟ آزاد بلوچستان آزاد کردستان کے بجائے اتحاد امت مسلمہ کا نعرہ لگے گا اور فلسطین و کشمیر کے معاملے پر سارے سنجیدہ اور یک پیج ہوجائیں گے؟
یہ وہ عجیب سوال ہیں جو کئی ذہنوں میں اٹھتے ہیں اور پھر دب جاتے ہیں۔ میں جب ان کا جواب تلاش کرتا ہوں تو مجھے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اب نہ سہی مگر پھر بھی کسی دن جمود کو موت آکر رہے گی۔ یہ ہلکی ہلکی ٹوٹ پھوٹ اک نشانی ہے۔ خلافت، ملوکیت، نام نہاد جمہوریت اور آمریت، اور یہ طاقت کے نام پر رسہ کشی، ایک دن اسی رسی کے ٹوٹنے کا سبب بنے گی۔ پھر چاہے مارکسزم ہوگا، کیپیٹل ازم ہوگا، جمہوریت ہوگی یا خلافت ہوگی۔ اسلام کی روح ان بے جان نظاموں کے جسموں میں پھونک دی جائے گی۔ انسان کا حق سب سے مقدم ہوگا۔ حق کی بنیاد پر قانون بنے گا۔ انسانیت کا معیار بدل دیا جائے گا۔ انسان کے معیار سے مومن کا معیار الگ ہوجائے گا۔ شیخ و شاہ دین کے بیوپاری نہیں ہوں گے۔ میں قانون اور خدا کے سوا کسی کو جواب دہ نہیں ہوں گا۔ مگر وہ وقت ابھی نہیں آسکتا۔ نقال اس وقت کے آنے سے پہلے اس کی نقالی کریں گے۔ اور ہم ہمیشہ کی طرح بازی گروں کے دھوکے میں آجائیں گے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس راہ حق کی تلاش میں سرگرداں ہوں، جو ہمیں وقت پر منزل تلک لے جائے۔
بڑے شارٹ کٹ دکھائے گئے۔ مگر انقلاب کبھی شارٹ کٹ راستوں سے نہیں آیا، نہ آسکے گا۔ یورپ اور امریکا آج جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، پہنچنا تو مسلم معاشرے کو چاہیے تھا (انسانی حقوق کی بنیاد پر) مگر خدا اسی کو عطا کرتا ہے جس نے محنت کی ہو۔ اور آج ہمیں وقت دور سے ہاتھ ہلا کر کہہ رہا ہے کہ
آپ ایک اور نیند لے لیجئے
قافلہ تو گزر گیا کب کا