نیویارک:
امریکی طبّی ماہرین نے ’’مائیگرین‘‘ یعنی آدھے سر کے درد کی نئی دوا تیار کرنے کے بعد انسانوں پر اس کی وسیع طبّی آزمائشیں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) بھی کامیابی سے مکمل کرلی ہیں، جن کے بعد امید ہے کہ یہ دوا آئندہ سال تک مارکیٹ میں دستیاب ہوجائے گی۔ البتہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق، مائیگرین کی نئی دوا ’’رائمیجی پینٹ‘‘ (Rimegepant) ایک گولی کی شکل میں ہے جسے کو ایک سال سے زیادہ عرصے تک 1186 مریضوں پر آزمایا گیا۔ اسے استعمال کرنے والے مریضوں کی بڑی تعداد کو واضح افاقہ ہوا جبکہ بعض مریضوں میں سائیڈ ایفیکٹس کے طور پر متلی اور پیشاب میں جلن کی شکایت بھی سامنے آئی جو مائیگرین کی موجودہ دوا کے مقابلے میں بہت معمولی ضمنی اثرات ہیں۔
مائیگرین کے علاج کےلیے دی جانے والی موجودہ دواؤں میں ’’ٹرائی پینس‘‘ (Tripans) قسم کے مرکبات شامل ہوتے ہیں جن کے شدید ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کی فہرست بھی بہت طویل جن میں غنودگی، پٹھوں میں کمزوری، متلی، جلد پر خارش، منہ کا خشک ہوجانا، سینے میں درد اور خون کی رگوں کا سخت ہوجانا وغیرہ شامل ہیں جس کا نتیجہ دل کے دورے یا شریانوں اور دل کی دوسری بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
نئی دوا ’’رائمیجی پینٹ‘‘ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ یہ خون کی رگوں کو متاثر نہیں کرتی، یعنی اسے دل اور شریانوں کی تکلیف میں مبتلا مریض بھی بے خوف و خطر ہوکر استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ مائیگرین کے علاج میں 30 سال بعد کوئی نئی دوا کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
بتاتے چلیں کہ مائیگرین/ میگرین کو اردو اصطلاح میں ’’دردِ شقیقہ‘‘ یا ’’آدھا سیسی درد‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے مریضوں کی تعداد پاکستان میں بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد اس تکلیف میں مبتلا ہیں اور ان کی اکثریت مائیگرین کے علاج میں گھریلو ٹوٹکے اور روایتی طبّی طریقے (حکیمی علاج اور آیورویدک وغیرہ) ہی استعمال کرتی ہے۔ ٹرائی پینس کے شدید سائیڈ ایفیکٹس کے خوف سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مائیگرین کے مریض یہ دوائیں صرف اسی وقت کھاتے ہیں جب دردِ شقیقہ، برداشت سے باہر ہونے لگے۔
ان حالات کے پیشِ نظر یہ نئی دوا مائیگرین کے مریضوں کےلیے امید کی ایک نئی کرن ہے جس کا انتظار بڑی شدت سے کیا جائے گا۔
رائمیجی پینٹ سے متعلق فیز تھری کلینیکل ٹرائلز کی تفصیلات ’’دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔