لاہور:
پاکستان کی برآمدات کا بیشتر انحصار زراعت پر ہے۔ چاول ہماری اہم برآمد ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 0.7 فیصد ہے۔ پاکستان باسمتی اور اری چاول کا تیسرا بڑا برآمدکنندہ ہے اور اپنی پیداوار کا 50 فیصد برآمد کرتا ہے۔
باسمتی چاول امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جب کہ اری چاول چین اور دیگر ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی چاول کا برآمداتی حجم زوال کا شکار ہے۔ 2014 میں 2.2 ارب ڈالر کا چاول برآمد کیا گیا جب کہ 2018 میں اس غذائی جنس کی برآمد سے 2.1 ارب ڈالر حاصل ہوئے ۔ چاول کی گرتی ہوئی برآمد کی ایک اہم وجہ پردار کیڑا ’ کھپرا ‘ ہے۔ عموماً یہ کیڑا ذخیرہ شدہ گندم کو خوراک بناتا ہے مگر اب یہ چاول کے ڈھیروں میں بھی نظر آرہا ہے۔
چاول کے برآمدی کنٹینرز میں بھی یہ کیڑا پایا گیا ہے اور 30فیصد تک نقصان کا سبب بنتا ہے۔ 2014ء میں امریکا نے 43000 پونڈ چاول کنسائمنٹ میں کھپرے کی موجودگی کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ 2013ء میں میکسیکو نے 3000 ٹن چاول کی کنسائمنٹ منسوخ کردی اور پاکستان سے چاول کی درآمد پر پابندی عائد کردی جو ہنوز برقرار ہے۔ 2011 سے 2014 کے دوران چاول کے برآمدی سودوں کی منسوخی اور شپمنٹ کی واپسی کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ رواں سال روس کو بھیجے گئے کنسائنمنٹ میں ایک بار پھر یہ کیڑا پایا گیا ہے، حالاں کہ چاول کو میتھائل برومائڈ سے ٹریٹ بھی کیا گیا تھا۔
اس کی وجہ سے روس نے پاکستان سے نہ صرف چاول بلکہ دیگر غلوں کی درآمد پر بھی عارضی پابندی عائد کردی ہے۔ اس تناظر میں چاول کا برآمداتی حجم برقرار رکھنے کے لیے کھیت سے لے کر کنسائنمنٹ کی تیاری تک تمام مراحل میں چاول کو حشرات سے پاک رکھنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔