اس داستان کا آغاز 12 سال پہلے ہوتا ہے جب بھارت نے اکتوبر 2008 میں ’’چندریان 1‘‘ لانچ کیا جس نے چاند کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند پر موجود معدنیات کا جائزہ لیا۔ بعد ازاں اسی ڈیٹا کی مدد سے ناسا کے ماہرین نے چاند کے قطبین پر موجود گڑھوں میں پانی، برف کی شکل میں دریافت کیا۔ چاند پر پانی کا مل جانا ایک بہت بڑی دریافت تھی جس نے فلکیاتی دنیا میں ہلچل مچا دی۔
چاند پر پانی ملنے کے بعد انسان کا چاند پر کالونیاں بنانے کا خواب حقیقت دکھائی دینا شروع ہوگیا۔ اسی دریافت نے بھارت کے چندریان مشن کو دُنیا بھر سے بھی متعارف کروایا۔ 22 جولائی 2019 کو بھارت نے چندریان سیریز کا دوسرا مشن لانچ کیا جسے ’’چندریان 2‘‘ نام دیا گیا۔ 140 ملین ڈالر کی لاگت سے بھیجا جانے والا یہ مشن 7 ستمبر 2019 کو چاند کے جنوبی قطب کے اُس حصے پر لینڈ کرے گا جہاں پانی کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ اگر بھارتی مشن چاند کی سطح پر لینڈ کرجاتا ہے تو امریکا، روس اور چین کے بعد بھارت چاند پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جائے گا۔ یاد رہے کہ چند ماہ پہلے اسرائیل بھی چاند پر لینڈنگ کی ناکام کوشش کرچکا ہے۔
’’چندریان 2‘‘ خلائی راکٹ تین حصوں پر مشتمل ہے: ایک حصہ لیونر آربٹر (Lunar orbitor) کہلاتا ہے جو چاند کے گرد چکر لگاتا رہے گا؛ دوسرا حصہ لیونر لینڈر (Lunar Lander) ہے جس کے ذریعے چاند پر لینڈ کیا جائے گا؛ جبکہ تیسرا حصہ لیونر روور (Lunar Rover) یعنی چاند گاڑی ہے جو چاند کی سطح پر چل کر مختلف مقامات سے مٹی کے نمونے اکٹھے کرے گیِ، اور جس کے ذریعے چاند پر پانی کی موجودگی سے متعلق اہم معلومات مل سکیں گی۔
کائناتی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ چاند زمین کے انتہائی نزدیک ہے جس وجہ سے زمین کی شدید کشش ثقل کے باعث یہ زمین کے ساتھ tidally lock ہے؛ یعنی زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند کا ایک ہی رُخ ہمیشہ زمین کی جانب رہتا ہے۔ اسی وجہ سے چاند کے زمین کی جانب رہنے والے حصہ کو ’’روشن رُخ‘‘ (Light side) جبکہ دوسری جانب رہنے والے حصے کو تاریک حصہ (Dark side) بھی کہتے ہیں، یہ مشن چاند کے تاریک حصے پر لینڈ کرے گا۔ اس سے پہلے چین وہ واحد ملک ہے جو چاند کے تاریک حصے پر لینڈ کرسکا ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر پڑھا، چاند کے تاریک حصے کا رُخ زمین کی جانب نہیں ہوتا جس وجہ سے تاریک حصے پر موجود خلائی گاڑی براہ راست زمین کی جانب سگنل نہیں بھیج پائے گی۔ اسی خاطر لیونر روور ڈیٹا کو چاند کے گرد چکر لگاتے بھارتی سیٹیلائٹ یعنی لیونر آربٹر کو بھیجے گا، جو بعد ازاں اس ڈیٹا کو زمین کی جانب نشر کردے گا۔ مستقبل میں انسان جب چاند پر کالونیاں بنائے گا تو اندازہ ہے کہ چاندکے اُسی حصے پر ڈیرے ڈالے گا جہاں چندریان 2 تحقیقات کی غرض سے لینڈ کرے گا۔
یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ 50 سال پہلے جب انسان نے چاند پر قدم رکھے تو اس دوران اپولو مشنز محض دو سے تین دنوں میں چاند پر پہنچ جاتے تھے۔ تو بھارتی مشن کو چاند پر پہنچنے کےلیے ڈیڑھ مہینہ کیوں لگے گا؟ اس کا سادہ سا جواب ہے ’’بچت۔‘‘ اپولو مشنز انسانی مشن تھے جن کےلیے سیٹرن فائیو (Saturn-V) راکٹ استعمال کیا گیا جس کی رفتار تیز تو تھی مگر وہ ایندھن بھی بہت زیادہ کھاتا تھا، جبکہ بھارت کی جانب سے لانچ کیا جانے والا مشن زمین کی کشش ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رفتار بڑھائے گا اور کم سے کم ایندھن استعمال کرتے ہوئے چاند پر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے 2014 میں بھارتی خلائی ادارہ ’’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ (ISRO) مریخ کی جانب ’’منگلیان‘‘ نامی مشن انتہائی کم خرچ پر بھیج چکا ہے جو آج بھی مریخ کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ ناسا کی جانب سے مریخ کی طرف لانچ کیے جانے والے مشن کی لاگت 671 ملین امریکی ڈالر تک ہوتی ہے جبکہ بھارت نے یہی مشن 74 ملین امریکی ڈالر میں لانچ کیا، لہٰذا بھارت اسی ’’بچت پالیسی‘‘ کو اپناتے ہوئے چاند کی جانب گامزن ہے۔
یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ 2022 میں بھارت زمینی مدار میں اپنا خلائی اسٹیشن ’’گگن یان‘‘ چھوڑنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جو ایک ہفتے تک زمین کے گرد چکر لگائے گا۔ اس میں تین بھارتی خلاء نورد سوار ہوں گے جو اس دوران کئی سائنسی تجربات انجام دیں گے۔ اگر بھارت یہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو امریکا، روس اور چین کے بعد بھارت وہ چوتھا ملک بن جائے گا جو خلاء میں اپنے خلاء نوردوں کو بھیجے گا۔ اس کے علاوہ بھارت کا 2020 میں سورج کی جانب، جبکہ 2023 میں سیارہ زہرہ کی جانب بھی ایک غیرانسان بردار مشن بھیجنے کا ارادہ ہے۔
ہمارے لیے یقیناً سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک، جس نے ہمارے ساتھ آزادی حاصل کی، وہ پہلے منگلیان، پھر چندریان اور اب گگن یان کے ذریعے خلاء کو تسخیر کرنے میں مصروف ہے جبکہ پاکستان کا قومی خلائی تحقیقی ادارہ ’’سپارکو‘‘ (SUPARCO) ابھی تک چین کے تعاون سے اپنے دو موسمیاتی سیارچے ہی خلاء میں بھیج سکا ہے۔ اس کے مقابل بھارتی خلائی ایجنسی (ISRO) اکیلے 104 سیٹیلائٹس لانچ کرچکی ہے۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، اپنے بنائے ہوئے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ دنیا چاند کے بعد مریخ اور سورج کو تسخیر کرنے کی جانب گامزن ہے اور ہماری ترجیحات ابھی تک یہی ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پِلانے۔ ہماری تعلیم کا یہ معیار ہے کہ آج ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بھی مون لینڈنگ (چاند پر انسان کے اترنے) جیسے واقعات کا انکار کرتا ہے۔
اب وقت ہے فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں کنویں کا مینڈک بنے رہنا ہے یا حقائق کو تسلیم کرنا ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ دُنیا کو ہمارے خلاف سازشوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا کو اس قوم سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا جو ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہو۔
دوسروں کی کامیابیوں اور اپنی ناکامیوں کو سازش کہہ کر آنکھیں بند کرلینے سے ہم کوئی کمال نہیں کررہے۔ ہم کیوں ایسی قوم بن چکے ہیں جس کا موجودہ ترقی میں ایک فیصد حصہ نہیں، لیکن اس کے باوجود دوسروں کی کامیابی پر تالیاں بجانے کے بجائے ہم کان بند کرلیتے ہیں۔ ہم اس حد تک فرسٹریشن کا شکار کیوں ہوچکے ہیں؟ ہمیں یقیناً اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی، وگر نہ ہمیں اپنے خاتمے کےلیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی۔