یلیفورنیا:
سرطان کی صورت میں اس کے اصل مقام تک دوا پہنچانا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اب تک یہ ایک پیچیدہ اور مشکل ترین کام سمجھا جاتا رہا تھا۔ لیکن اب موٹرکے بل پر جسم کے اندر تیرنے والے ایسے روبوٹ بنائے گئے ہیں جو خود کینسر ذدہ خلیات اور رسولیوں تک پہنچ سکیں گے۔
دوا کے اوپر ایک خول یا غلاف چڑھایا گیا ہے جو براہِ راست رسولیوں کے مقام پر دوا چھوڑتا ہے جبکہ انتہائی باریک موٹریں اسے اپنی منزل تک لے جاتی ہیں۔ ماہرین نے اس ایجاد کا چوہوں پر کامیاب تجربہ بھی کیا ہے۔
اسے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹٰیکنالوجی کے سائنسدانوں نے بنایا ہے۔ ’ جب کیپسول ٹیومر کے پاس پہنچتا ہے تو ہم اسے سرگرم کرسکتے ہیں۔ اس مقام پر کیپسول ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں سے انتہائی باریک مائیکروموٹریں نکلتی ہے جو رسولی کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہے۔ موٹریں اپنی حرکت کے دوران دھیرے دھیرے دوا ڈالتی رہتی ہیں اور یوں سرطان کے خلاف دوا اپنے درست مقام تک پہنچ جاتی ہے،‘ پروفیسر وائی گاؤ نے بتایا جو تحقیقی ٹیم کے سربراہ ہیں۔
پروفیسر وائی اور ان کے ساتھیوں نے مائیکروموٹریں پرت در پرت سلسلہ وار بنائی ہیں۔ پہلے انہوں نے 20 مائیکرومیٹر قطر کے میگنیشیئم ذرات بنائے۔ اس کے بعد انہیں سونے کی پرت میں بند کیا اور اسے ایک ایسے ہائیڈروجل میں بند کیا جس میں کینسر کے خلاف دوا بھری ہوئی تھی۔ آخر میں اس طرح کی کئی موٹروں کو ایک جیلاٹن کیپسول میں بند کردیا۔
اس کے بعد تجرباتی طور پر یہ کیپسول ایسے چوہوں کو دیئے گئے جن کی آنتوں میں سرطان تھا۔ کینسر کے خلیات عموماً نزدیکی زیریں سرخ (نیئر انفراریڈ ) روشنی جذب کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ماہرین ان کیپسول کی افادیت کو بہتر طور پر جاننے کے قابل ہوگئے ۔ اس کے لیے فوٹواکوسٹک کمپیوٹڈ ٹوموگرافی امیجنگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ۔ یہ ٹیکنالوجی انسانی جسم کے اندر انفراریڈ روشنی بھیجتی ہے اور واپس آنے والی روشنی کو الٹراساؤنڈ کی صورت میں وصول کرتی ہیں۔
جیسے ہی کیپسول سرطانی علاقے کے قریب پہنچے ماہرین نے ان پر انفراریڈ روشنی ڈالی جس سے سونے کی پرت گرم ہوگئی اور دوا باہر نکل آئی اور اپنے مقام پر پہنچی۔
اگرچہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن انسانوں پر آزمائش کے لیے اس ٹیکنالوجی میں بہت سی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔