عالمی عدالتِ انصاف کے کلبھوشن یادیو کیس کے حوالے سے گزشتہ دنوں سنائے گئے فیصلے کو لے کر بہت شور مچایا جارہا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے بھارتی دعوے کو یکسر ردّ کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو ’’جاسوس‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔ اور اسی ایک بات کو لے کر ملک بھر میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ حالانکہ میرے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کلبھوشن کو جاسوس قرار دئیے جانے سے کیا ہوگا؟ یہ پہلی بار تھوڑی ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں تو پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ چونکہ پاکستانی قید میں ہے، اس وجہ سے اس سے بیان دلوایا گیا، مگر ایسے کتنے ہی جاسوس ہیں جنہوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ بھارت کےلیے جاسوسی کرتے رہے ہیں، مگر کہیں پر کوئی ذرہ برابر بھی فرق پڑا؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’را‘ پاکستان میں روز اول سے ہی سرگرم ہے اور اپنے اپنے مفادات کے تحت کہیں صوبائی عصبیت کی آگ کو بھڑکا رہی ہے، تو کہیں مذہبی شدت پسندی کو دیا سلائی دکھا رہی ہے۔ کہیں پر یہ مختلف مسالک کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنے کےلیے تگ و دو کر رہی ہے تو کہیں پر لسانی بنیادوں پر لوگوں کو اکسا رہی ہے۔ ان کا محض ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح ریاست پاکستان کو کمزور کیا جائے اور اسے امن و امان سے محروم رکھا جائے۔
کلبھوشن کے معاملے میں ہم نے بہت گرمجوشی دکھائی اور ماضی کے برعکس اس معاملے کو اچھی طرح ہینڈل کیا، حالانکہ اس سے قبل بھی بے شمار بھارتی ایجنٹوں کی پاکستان میں سرگرمیوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔ بے شمار بھارتی جاسوس پکڑے جاچکے ہیں۔ کچھ بھارتی تو خود اپنے جاسوس ہونے کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ پاکستان میں ’’کام کرنے والے‘‘ بھارت کے چند مشہور جاسوسوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اندازہ ہوجائے گا کہ بھارت پراکسی وار میں کس حد تک جاسکتا ہے۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ یہاں صرف اُن ایجنٹوں کی بات ہورہی ہے جو بھارت سے خاص طور پر پاکستان بھیجے گئے۔ یہاں کے سہولت کاروں کا تو خیر قصہ ہی الگ ہے۔
اجیت دوول
بھارت کے موجودہ قومی سلامتی کے مشیر ’’اجیت دوول‘‘ برملا یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے 7 سال پاکستان میں بطور جاسوس گزارے۔ اگرچہ اجیت انڈین سول سرونٹ ہیں اور سول سرونٹس کو اس طرح ’’فیلڈ ‘‘ میں نہیں بھیجا جاتا، مگر اجیت کے بقول ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ ذمے داری سونپی گئی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے قیام کا زیادہ تر عرصہ لاہور میں ایک مسلمان کے روپ میں گزارا۔ کچھ عرصہ مینار پاکستان کے قریب جوس کی دکان بھی بنائی، داتا دربار بھی ان کا کافی آنا جانا رہا۔ اس حوالے سے وہ کئی واقعات سناتے ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ لاہور داتا دربار پر انہیں ایک ہندو ملا، جس نے انہیں ان کے کانوں میں ہونے والے سوراخ سے پہچان لیا تھا کہ یہ بھارتی ہیں، کیونکہ یہ سوراخ بھارت میں ہندوؤں کی ایک خاص ذات ہی کرواتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ اجیت کشمیر، میزو رام اور سکھوں کے خلاف ہونے والے گولڈن ٹیمپل آپریشن میں بھی ’’انڈرکور جاسوس‘‘ کے طور پر تعینات رہے ہیں۔
کشمیر سنگھ
بھارت کے پکڑے جانے والے جاسوسوں میں سرفہرست امرتسر پولیس کا سپاہی ’’کشمیر سنگھ‘‘ ہے۔ جو اپنے ایک ساتھی سمیت 1973 میں راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان میں ملٹری جاسوسی کی غرض سے آیا تھا، لیکن پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے اسے دھر لیا۔ اس پر الزام ثابت ہوگیا، جس پر فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی جبکہ اس کے ساتھی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی، جو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھارت واپس چلا گیا۔ نامعلوم وجوہ کے باعث کشمیر سنگھ کی سزائے موت پر عملدرآمد نہ ہوسکا اور یہ شخص ایک سے دوسری جیل گھومتا رہا۔ اس کا معاملہ (2007-2008 میں) نگران وزیر برائے انسانی حقوق انصار برنی کی مداخلت سے میڈیا میں آیا۔ برنی صاحب نے اس پر خصوصی شفقت فرمائی اور انہی کی مداخلت سے پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس کی رحم کی اپیل منظور کرتے ہوئے موت کی سزا ختم کردی۔ حالانکہ اس سے قبل بھی 1978 میں کشمیر سنگھ نے رحم کی اپیل کی تھی، جو اس وقت کے صدر چوہدری فضل الٰہی نے مسترد کردی تھی۔
کشمیر سنگھ نے اپنی سزا کے تقریباً چودہ سال ساہیوال جیل میں کاٹے اور اسی دوران اس کے بارے میں یہ سننے کو ملا تھا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اپنا نام ’’محمد ابراہیم‘‘ رکھ لیا ہے۔ 4 مارچ 2008 کو انصار برنی کی کاوشوں سے اس کی رہائی عمل میں آئی اور برنی صاحب اسے خود بھارت چھوڑ کر آئے۔ جہاں پہنچ کر ایک ٹی وی انٹرویو میں کشمیر سنگھ نے نہ صرف اپنا جاسوس ہونا تسلیم کیا، بلکہ اسلام قبول کرنے کو بھی ایک ڈھونگ قرار دیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ بھارت کا ہیرو ہے، کیونکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب واپس لوٹا ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اور فوج کے حوالے سے وہ کافی شاکی نظر آیا کہ جنہوں نے اس کی گرفتاری کے بعد اس کے خاندان والوں کو پوچھا تک نہیں اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
اپنے انٹرویو میں کشمیر سنگھ نے انکشاف کیا کہ پاکستانی جیلوں میں بڑی تعداد میں بھارتی قیدی موجود ہیں۔ جن میں سے تنویر ٹھاکر، نمراتا بیجی، اہوجند، راجنیش شرما سے وہ مل بھی چکا ہے۔ یہ تمام لوگ جاسوسی کی غرض سے پاکستان آئے تھے اور زیادہ تر لوگ امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔
سربجیت سنگھ
دوسرا پکڑا جانے والا بھارتی جاسوس جسے بہت شہرت ملی، سربجیت سنگھ تھا۔ جس نے 1990 میں لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کیے تھے، جن میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد یہ بھارت واپس جانے کے دوران بارڈر سے گرفتار ہوا تھا۔ عدالت نے قتل کا الزام ثابت ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنائی، مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ 23 اگست 2005 کو سربجیت کا معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا، جس کے بعد بھارتی حکومت سربجیت کی رہائی کےلیے سرگرم ہوگئی۔ 2008 میں سربجیت کے خاندان والے پاکستان آئے اور مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بھی پاکستان سے اس معاملہ کو ’’انسانی بنیادوں‘‘ پر دیکھنے کی اپیل کی۔ سربجیت کے ایک قیدی دوست افتخار علی نے سربجیت کے حوالے سے اپنی کچھ یاداشتیں قلمبند کی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی شائع کردہ کہانی انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’میں نے پوچھا، سربجیت سنگھ آپ ہیں؟‘‘ جس پر سربجیت سنگھ نے کہا کہ مجھے ایسے نہیں کہنا، میں مسلمان ہوچکا ہوں اور میرا نام اب ’’محمد سرفراز‘‘ ہے۔ میں نے کہا کہ اس سے پہلے کشمیر سنگھ بھی تو مسلمان ہوا تھا، وہ میرے ساتھ میانوالی جیل سیکیورٹی وارڈ نمبر 3 میں 24 گھنٹے قرآن پڑھتا رہتا تھا، مگر بارڈر کراس کرتے ہی وہ پھر سے کشمیر سنگھ بن گیا۔ جس پر محمد سرفراز عرف سربجیت سنگھ مجھے صفائیاں پیش کرنے لگا کہ میں کشمیر سنگھ نہیں ہوں۔ میں نے پوچھا کہ جناب آپ نے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہوئے بم بلاسٹ کرکے کم از کم 30 لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آپ کی تمام اپیلیں خارج ہوچکی ہیں، مگر آپ کو پھانسی نہیں لگایا جارہا، کچھ بتاسکتے ہیں؟ تو سرفراز عرف سربجیت نے مجھے ایک تصویر دکھائی جس میں پاکستان کے وزیر قانون فاروق ایچ نائیک (2009) میں سربجیت کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ سرفراز عرف سربجیت نے کہا: بھلا مجھے کیوں پھانسی دی جائے گی، حکومتِ پاکستان اور بھارت دونوں حکومتوں میں میری رہائی کی بات چیت چل رہی ہے، مجھے صرف عوامی دباؤ کی وجہ سے رہا نہیں کیا جارہا۔ حکومتِ پاکستان تو مجھے رہا کرنا چاہتی ہے۔‘‘
قریب تھا کہ سربجیت کو رہا کردیا جاتا، مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ تقدیر نے اس کےلیے کچھ اور ہی کہانی لکھ رکھی ہے۔ 2013 میں جیل میں کسی بات پر اس کی ایک قیدی سے لڑائی ہوئی جس نے اسے شدید زخمی کردیا۔ اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ملک عدم سدھار گیا۔ یوں اس کا آزاد فضا میں سانس لینے کا خواب تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
رویندرا کوشک
تیسرا مشہور پکڑا جانے والا بھارتی جاسوس 1952 میں ہریانہ میں پیدا ہونے والا ’’رویندرا کوشک‘‘ ہے، جس کی را میں شمولیت کی کہانی بہت حد تک ڈرامائی ہے۔ کوشک ایک تھیٹر آرٹسٹ تھا، ایک شو کے دوران اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے را کے ایک سینئر آفیسر نے اسے بطور خفیہ ایجنٹ نوکری کی پیشکش کی، جو اس نے قبول کرلی۔ اس کے بعد کوشک کو دو سال تک دہلی میں ٹریننگ دی گئی، جہاں اسے پاکستانی لہجے کے ساتھ اردو اور پنجابی زبان سکھائی گئی، اسلامی تعلیمات دی گئیں اور پاکستان سے متعلق بنیادی و ضروری معلومات دے کر 23 سال کی عمر میں ’’نبی احمد شاکر‘‘ نام کے ساتھ پاکستان بھیج دیا گیا۔
پاکستان پہنچنے کے بعد اس نے مکمل طور پر ایک پاکستانی شہری کا روپ دھار لیا۔ جعلی دستاویز بنوائیں، ایک درزی کی بیٹی سے شادی کرلی اور آرمی میں بطور ’’سویلین کلرک‘‘ نوکری شروع کردی۔ 1979 سے 1983 تک یہ شخص را کےلیے کام کرتا رہا۔ را میں اس شخص کو ’’بلیک ٹائیگر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کی بدقسمتی کا آغاز تب ہوا جب را کا ایک دوسرا ایجنٹ ’’عنایت مسیح‘‘بھارت سے کوشک کو ملنے آیا اور ریاستی اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس سے تفتیش کے دوران ہی رویندرا کوشک کی حقیقی شناخت ظاہر ہوئی، جس کے بعد اسے بھی گرفتار کرلیا گیا۔
کوشک نے ابتدائی تحقیقات میں ہی اقرارِ جرم کرلیا مگر بھارت نے روایتی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ اس کا کیس چلنا شروع ہوا، جس میں پہلے اسے سزائے موت سنائی گئی مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس کی سزا کم کرکے عمر قید میں بدل دی۔ یہ اپنی سزا کاٹ رہا تھا کہ 1999 میں ملتان کی سینٹرل جیل میں اسے دل کا دورہ پڑا اور یہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس کی موت کے بعد بھارتی میڈیا نے اسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ جسے زندگی میں پوچھا بھی نہیں گیا، مرنے کے بعد اسے بھی ہیرو بنالیا۔ رویندرا کوشک کے گھر والوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بھارتی فلم ’’ٹائیگر‘‘ رویندرا کوشک کو ’’خراجِ تحسین‘‘ پیش کرنے کےلیے ہی بنائی گئی تھی۔
سرجیت سنگھ
مشہور بھارتی جاسوسوں میں سرجیت سنگھ کا نام بھی شامل ہے، جس نے خود اپنی زبان سے بھارتی سرزمین پر اپنے جاسوس ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ سرجیت سنگھ بنیادی طور پر ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے کچھ عرصہ بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ساتھ کام کیا تھا، مگر 1968 میں یہ جاب چھوڑ کر دوبارہ کسان بن گیا تھا۔ 1970 کی دہائی میں سرجیت سنگھ کو بطور جاسوس بھارتی فوج میں بھرتی کیا گیا اور اسے پاکستان میں جاسوس بھرتی کرنے کا ٹاسک دے کر بارڈر پار روانہ کردیا گیا۔ سرجیت کے بقول اس نے بغیر کسی ویزے یا قانونی دستاویز کے 85 بار بارڈر کراس کیا۔ تاہم دسمبر 1981 میں اس کی گرفتاری عمل میں آگئی اور جرم ثابت ہونے پر اسے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قیدِ تنہائی کی سزا دے دی گئی۔ جہاں سے 30 سال بعد جون 2012 میں اس کی رہائی ہوئی۔ جب وہ واپس پہنچا تو علم ہوا کہ اس کا بڑا بیٹا، چار بھائی، باپ اور دو بہنیں اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ بھارت کےلیے جاسوسی کی سرجیت نے بہت بھاری قیمت چکائی، لیکن بھارت سرکار نے اس کے حوالے سے بھی لاتعلقی کا روایتی طرزِ عمل ہی اختیار کیا۔
ایک لمبے عرصے تک سرجیت کا معاملہ دبا رہا مگر اس کی رہائی کے بعد ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا، کیونکہ سرجیت نے بھارت کی زمین پر قدم رکھتے ہی اعتراف کرلیا کہ وہ جاسوسی کی غرض سے پاکستان گیا تھا۔ البتہ رہائی کے بعد سرجیت سنگھ بھی حکومتی رویے سے بڑا خائف نظر آیا اور بھارتی قومی ٹی وی چینل ’’دور درشن‘‘ پر ایک انٹرویو میں برملا کہا کہ ’’یہ بھارتی حکومت ہی تھی جس نے مجھے پاکستان بھیجا تھا، میں وہاں اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا‘‘۔ سرجیت سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ اس کی غیرموجودگی میں بھارتی حکومت اس کے اہل خانہ کو محض ڈیڑھ سو روپے ماہوار دیتی تھی۔ ’’اگرمیں ان کےلیے کام نہیں کرتا تھا تو وہ کس لیے میرے گھر والوں کو معاوضہ دیتے تھے؟ میرے پاس ڈاکومنٹڈ ثبوت موجود ہیں‘‘۔ تاہم بعد میں بھارت سرکار نے سرجیت سنگھ کے ساتھ معاملات سیٹل کرلیے اور بھاری رقم ملنے کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔
شیخ شمیم
بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک اور مہرے شیخ شمیم کو 1989 میں ریاستی اداروں نے پاک بھارت سرحد کے قریب سے گرفتار کیا تھا اور اس سے برآمد ہونے والے ٹرانسمیٹر اور ملٹری سے متعلق دستاویز یہ ثابت کرنے کا کافی تھیں کہ وہ پاکستان کس ارادے سے آیا تھا۔ اس کا کیس چلا اور اسے سزائے موت سنائی گئی اور1999 میں اس کی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا۔ شیخ شمیم پہلا (اور غالباً اب تک واحد) بھارتی جاسوس ہے، جسے واقعتاً سزائے موت دی گئی تھی۔
سابق جاسوسوں کی تنظیم
یہ تو کچھ وہ لوگ تھے جو پاکستان میں پکڑے گئے یا جن کی کہانی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آگئی۔ پاکستان میں بھارت کے کتنے جاسوس کام کررہے ہیں، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ستمبر 2013 میں دہلی میں ایک عجیب وغریب احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اس مظاہرے کا انعقاد ’’Jammu Ex-Sleuths Association‘‘ نے کیا تھا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ ’’سابق جاسوسوں‘‘ کی تنظیم ہے اور اس کے ممبر وہ تمام لوگ ہیں جنہیں پاکستان میں جاسوسی اور خفیہ مشن پر بھیجا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کے بعد بھارتی حکومت نے ان سے اور ان کے خاندان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، حتیٰ کہ ان کی رہائی کے بعد بھی انہیں نہیں پوچھا گیا۔ ستمبر2013 میں ہونے والے مظاہرے میں پاکستان میں جاسوسی کرنے والے بارہ جاسوس یا ان کے خاندان والے شریک ہوئے۔ بھارتی ٹی وی چینل IBN کی ویب سائٹ پر دیا گیا ان جاسوسوں کا مختصر احوال درج ذیل ہے:
ونود ساوھنے
سابق جاسوسوں کی تنظیم کے صدر ونود ساوھنے ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ ایک بار کسی را افسر نے اس کی ٹیکسی میں سفر کیا اور باتوں باتوں میں اس کو ’’سرکاری نوکری‘‘ کی پیشکش کی، جو ساوھنے نے قبول کرلی۔ کچھ عرصہ ٹریننگ کے بعد 1977 میں اسے پاکستان بھیجا گیا۔ جہاں کچھ عرصہ بعد ہی اسے گرفتار کرلیا گیا اور 11 سال کےلیے جیل بھیج دیا گیا۔ مارچ 1988 میں قید مکمل ہونے پر واپس بھارت روانہ ہوگیا۔ جہاں جاکر اس نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا اور زرِ تلافی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے صاف ٹھینگا دکھا دیا۔ جس سے مجبور ہوکر اس نے سابق جاسوسوں کی تنظیم بنائی۔ اگرچہ یہ تنظیم غلطی سے بارڈر کراس کرنے والے عام شہریوں، ماہی گیروں کے حقوق کےلیے بھی کام کرتی ہے، مگر اس کا بنیادی مقصد ان جاسوسوں کی آواز بننا ہے جنہوں نے سالہا سال بھارت سرکار کی خاطر جیلیں کاٹیں اور بھارت نے انہیں پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔
بلویر سنگھ
بلویر سنگھ کو 1971 میں پاکستان میں داخل کیا گیا، جہاں تین سال تک وہ جاسوسی کرتا رہا۔ 1974 میں ریاستی اداروں نے اسے گرفتار کرلیا اور پھر عدالت نے اسے 12 سال قید کی سزا سنائی۔ 1986 میں اپنی سزا کاٹنے کے بعد جب یہ واپس گیا تو اسے متعلقہ لوگوں سے ذرہ برابر بھی کوئی امداد نہ ملی، جس کے بعد اس نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ نے بلویر کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اسے تلافی کے طور پر رقم دینے کا فیصلہ سنایا، مگر آج تک اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
سورم سنگھ
دیگر بہت سے جاسوسوں کی مانند سورم سنگھ کو 1974 پاکستان میں خفیہ معلومات کے حصول کےلیے بھیجا گیا، مگر اسے غیرقانونی طور پر بارڈر کراس کرتے ہوئے ہی فورسز نے پکڑلیا۔ 4 ماہ تک اس کا کیس چلا، جس کے بعد تقریباً 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 7 ماہ مختلف جیلوں میں کاٹے، جبکہ 13 سال سیالکوٹ کی گورا جیل میں گزارے۔ 1988 میں سزا پوری ہونے کے بعد واپس بھارت ڈی پورٹ کردیا گیا۔
گوربکش رام
ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد 1988 میں پاکستان آرمی کے اسلحہ کی معلومات حاصل کرنے کےلیے بھیجا گیا۔ دو سال بعد کام مکمل کرنے کے بعد واپس جارہا تھا کہ بارڈر پر دھر لیا گیا۔ جہاں سے سیالکوٹ جیل میں منتقل کیا گیا۔ تقریباً ڈھائی سال تک اس کا کیس چلتا رہا اور پھر 14سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 2006 میں جیل سے رہا ہوکر واپس بھارت چلا گیا۔
ڈینیل
ڈینیل کو 1992 میں جاسوس کی نوکری ملی اور 1993 میں اسے پاکستان بھیجا گیا، جہاں بارڈر کراس کرتے ہوئے ہی گرفتار ہوگیا۔ 4 سال سزا کاٹنے کے بعد واپس بھارت چلا گیا اور جاسوسی چھوڑ کر رکشہ چلانے کا کام شروع کردیا۔
رام پرکاش
ایک سال تک ’’فوٹو گرافر‘‘ کی ٹریننگ حاصل کی اور 1994 میں پاکستان آیا، جہاں تین سال تک کام کرتا رہا۔ 3 جون 1997 کو بھارت واپس جاتے ہوئے پکڑا گیا۔ حالانکہ اس کے بقول یہ پکڑے جانے سے قبل تقریباً 75 بار بارڈر پار کرچکا تھا۔ ابتدائی طور پر سیالکوٹ جیل میں رکھا گیا۔ ایک سال بعد اسے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 7 جولائی 2008 کو رہا ہوکر واپس بھارت چلا گیا۔
رام راج
18سال تک را کےلیے بطور جاسوس کام کیا۔ 18ستمبر 2004 کو پاکستان بھیجا گیا اور اگلے ہی روز پکڑا گیا۔ دو سال مقدمہ چلنے کے بعد 6 سال قید کی سز سنائی گئی۔ 8 سالہ جیل کاٹنے کے بعد واپس بھارت گیا تو حکام نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔
اس اسٹوری کے مطابق سنیل، دیوت اور تلک راج آج بھی پاکستان میں قید اپنی سزا پوری کررہے ہیں۔ کارگل جنگ کے دوران پاکستان میں جاسوسی کرنے والا بھارتی ایجنٹ ست پال چونکہ بیمار تھا، اس وجہ سے وہ اس مظاہرے میں خود شریک نہیں ہوسکا، البتہ اس نے اپنے بیٹے سریندر کو بھیجا، جبکہ کمل کمار کا بیٹا اس لیے اس مظاہرے میں شریک ہوا کہ اسے اپنے باپ کی کچھ خبر مل سکے، جو 1988 سے پاکستان میں قید تھا اور باقاعدگی سے اپنے گھر والوں کا خط لکھتا تھا، مگر 2012 کے بعد سے اس کے گھر والوں کو کوئی خط نہیں ملا۔
جاسوسوں کے گاؤں
بھارت کے ضلع گورداسپور کے گاؤں ’’ڈاڈوا‘‘ اور ’’دھاریوال‘‘ کو دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ گاؤں پوری دنیا میں اپنی نوعیت کے انوکھے گاؤں ہیں، جن کے سبھی خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ جاسوس ہیں یا بھارت کےلیے جاسوسی کرچکے ہیں۔ اسی بنا پر ان دونوں گاؤں کو ’’جاسوسوں کے گاؤں‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر باسیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان جاکر بھارت کےلیے جاسوسی کی تھی، لیکن ان کے پاس اپنے جاسوس ہونے کے ثبوت نہیں ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے بقول ’’را‘‘ ان سے معاہدہ کرتی ہے کہ اگر کوئی جاسوس پکڑا گیا تو بھارت سرکار اسے کسی بھی قسم کی معاونت فراہم کرنے، حتیٰ کہ پہچاننے سے بھی انکار کردے گی۔ تاہم یہاں کے لوگوں کے پاس پاکستانی عدالتوں کی دستاویز موجود ہیں، جن میں ان پر جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اس گاؤں میں ہر گھر کی ایک سی کہانی ہے۔ کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی اور کسی کا باپ پاکستان میں یا تو قید ہے، یا پھر اپنی سزا کاٹ کر واپس آچکا ہے۔ یہاں کے بیشتر افراد نیچ ہندو ذات دلت سے تعلق رکھتے ہیں اور خاص طور پر ایسے دلت جو عیسائی بھی ہیں۔ نہ ان لوگوں کے پاس کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی یہ افراد زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی لیے جب بہتر زندگی گزارنے کے خواب بننے لگتے ہیں تو بھارتی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اب یہاں کے لوگوں کا اس بات کا ادارک ہوگیا ہے کہ ’’جب بھارتی ایجنسیوں کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو وہ انہیں ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں۔ بالخصوص اگر وہ پاکستان میں گرفتارہوجائیں، تو ان کی رہائی کےلیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان سے مکمل طورپر لاتعلقی ظاہر کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی بھی طرح سے رہائی پاکر واپس بھارت آجائیں تب بھی کوئی انھیں ’’اپنا‘‘ نہیں مانتا‘‘۔ اسی لیے اب یہاں کی نئی نسل میں ’’جاسوس‘‘ بننے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے، جس سے یقیناً را کو پریشانی لاحق ہوگی۔
مندرجہ بالا جاسوس تو صرف وہ ہیں جو پاکستان میں جاسوسی کےلیے منتخب کیے گئے تھے، ویسے بھارت میں ان جاسوسوں کی کہانیاں بھی عام ہیں جنہیں بنگلادیش، میانمار (برما)، چین اور سری لنکا میں جاسوسی کےلیے بھیجا گیا۔ بھارت سرکار کا یہ ازلی وطیرہ ہے کہ کسی بھی طرح علاقے کی تھانیداری حاصل کی جائے اور اس کےلیے ہر جائز وناجائز ہتھکنڈہ اپنایا جارہا ہے۔ اجیت دوول اور گائو رکھشک عرف چوکیدار نریندر مودی جیسے کٹر افراد کی موجودگی میں بھارت سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ اب کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دیتے ہوئے اس کے کیس کا ری ٹرائل کیا جارہا ہے، تاہم عالمی سطح پر ہمیں اس کیس سے ابھی بہت کچھ سمیٹنا ہے اور یہ معاملہ کلبھوشن تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے۔ یہاں ابھی بہت سے اجیت دوول، کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ، رویندرا کوشک اور سرجیت سنگھ موجود ہیں۔ ان کا معاملہ بھی عالمی سطح پر اٹھایا جانا چاہئے، تاکہ رام رام جپنے والوں کی بغل میں چمکتی چھری دنیا کے سامنے عیاں ہوسکے۔