کراچی کو اندھیروں میں غرق کرنے والی ’کے الیکٹرک‘ کے ظالمانہ اقدامات پر نہ تو حکومت کچھ بول رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن میں شامل کوئی سیاسی جماعت بات کر رہی ہے۔ شروع شروع میں تو عوام برداشت کرتے رہے مگر گزشتہ پانچ چھ ماہ سے ہر صارف پریشان بلکہ بہت پریشان ہے۔ دو روز قبل میں فوٹو اسٹیٹ کی دکان پر گیا جہاں ایک بزرگ بجلی کے پرانے بلز کی فوٹو اسٹیٹ کرواتے جاتے تھے اور ساتھ میں اپنے آنسو بھی صاف کرتے جاتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کے الیکٹرک حد سے کہیں زیادہ بل گھروں پر بھیجتی ہے اور صارف اس کی شکایت لے کر کے الیکٹرک کے مرکز پہنچتا ہے تو اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس کے بل کی قسطیں ضرور کردی جاتی ہیں لیکن اس صارف کے بل کو کم نہیں کیا جاتا چاہے وہ کتنے لاکھ روپے کا ہی کیوں نہ ہو!
یہاں ایک اور عجب کرپشن کی غضب داستان سن لیجیے۔ بجلی کا جو ظالمانہ ٹیرف وزارت بجلی و پانی کی جانب سے کے الیکڑک کو دیا گیا ہے، اس کے بعد 5 کلو واٹ کے صارفین کو پیک اور آف پیک کے نام پر 5.79 فی یونٹ کے بجائے آف پیک ٹائم میں 14.38 فی یونٹ اور پیک ٹائم میں 20.70 فی یونٹ چارج کیے جارھے ہیں۔ یعنی چار سو فیصد اضافہ۔ لیکن اس پر کوئی بھی بولنے والا نہیں۔
کوئی فہم و فراست اور عقل و شعور رکھنے والا شخص اس بات کا دفاع تو کرکے بتائے کہ وہ ایک دکان سے کوئی شے 100 روپے کی خریدتا ہے اور اگر وہی شے خریدنے شام 7 بجے کے بعد جائے اور وہ 100 کے بجائے 400 روپے میں ملے، تو کیا اسے ناجائز منافع خوری نہیں کہا جائے گا؟ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ لیکن کے الیکٹرک تو اسی طرح 400 فیصد تک یونٹس بڑھا کر فیک فیکٹر لگاتی ہے اور عوام کا خون نچوڑنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کے الیکٹرک اور شہری حکومت کے درمیان بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے تنازعہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا، ’’کے الیکٹرک کوئی فلاحی ادارہ نہیں، یہ پاکستانی نہیں ہیں، یہ تو یہاں کمانے آئے ہیں۔ کے الیکٹرک اب پورے کراچی والوں کی کھال تک اتار کر لے جائے گی۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عدالت عظمی اور محترم چیف جسٹس نے کراچی والوں پر زائد بلنگ کی صورت میں ہونے والے ظلم کو دیکھا ہوگا جس کے بعد انہوں نے یہ ریمارکس دیئے۔
آج اہلیان کراچی سوال کرتے ہیں کراچی کے ان تمام ٹھیکیداروں سے جو کراچی کے والی وارث بنتے ہیں، جنہوں نے کراچی کے نام پر ووٹ تو لے لیا لیکن اب انہیں کراچی والوں کی کوئی فکر نہیں۔ کہاں ہے ایم کیو ایم پاکستان؟ کہاں ہے پاکستان تحریک انصاف؟ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پاکستان پیپلز پارٹی بھی خاموش کیوں ہے؟ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک یا تو ان تمام سیاسی جماعتوں کو تحفے تحائف دیتی ہے یا پھر معاملہ کچھ اور ہے… لیکن جو بھی ہے بہت بُرا ہے، بدتر، اور بدترین کی سمت بڑھ رہا ہے کیونکہ اس وقت غریب آدمی کے الیکٹرک کے زیادہ یونٹس اور زائد بلنگ کے سبب ذلیل و خوار ہو رہا ہے مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وفاق اس اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ دیں اور کے الیکٹرک کے ظالمانہ اقدامات سے اہلیان کراچی کی جان چھڑوائیں؛ ورنہ کہیں یہ نہ ہو کہ عوام گھروں سے باہر نکل کر وزیروں اور مشیروں کے گھروں تک پہنچ جائیں۔ خدارا قوم کے اس سنگین اور شدید مسئلے کو فوری حل کیا جائے۔