آکلینڈ:
اشجار کی دنیا سے یہ دلچسپ خبرآئی ہے کہ اگر صحتمند درختوں کے پاس کسی درخت کا تنا گر کر مرنے لگتا ہے تو باقی تمام درخت مل کر اسے غذائی اجزا اور پانی وغیرہ پہنچاتے ہیں تاکہ درخت مرنے سے بچ سکے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ درختوں کے درمیان ایک مربوط نظام ہوتا ہے اور جڑوں کے وسیع جال کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس اہم دریافت سے درختوں کی کیفیت اور جنگلات کے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
نیوزی لینڈ میں واقع آکلینڈ یونیورسٹی آف ٹٰیکنالوجی کے سباسشیئن لیوزنگر اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ایک مردہ درخت کا تنا عرصے سے ایک جگہ موجود تھا لیکن اس پر تازہ چھال اور بافتیں اگ رہی تھیں۔ یہ نیوزی لینڈ کا مشہور درخت کوری تھا جو جڑ سے الگ ہونے کے بعد بھی زندہ تھا۔
سبساٹیئن نے اس تنے پر پانی کا بہاؤ معلوم کرنے والے کئی سینسر لگائے اور بالکل قریب دو درختوں پر بھی ایسے مانیٹر نصب کیے۔ چند ہفتوں بعد ہی معلوم ہوا کہ زندہ درخت غذائی اجزاء اور پانی، گرے ہوئے تنے تک بھیج رہے ہیں۔ دن میں درختوں کے پتوں سے پانی بخارات بن کر اڑتا رہا تو تنے میں پانی کم کم آیا لیکن شام کے بعد سے رات تک زندہ درختوں سے تنے تک پانی کی زیادہ مقدار دیکھی گئی۔
درخت کے تنے میں پانی کی آمد پر اس کے پڑوسی درختوں نے بھرپور مدد کی۔ اس بنا پر سباسشیئن کہتے ہیں کہ ایک جنگل کو ایک منظم اور واحد جسم قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ یہ درخت سیکڑوں سال قدیم ہیں لیکن ان کے درمیان تعلق حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔ اب اس کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید درخت کا تنا بھی دوسرے صحت مند درختوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے کسی کام آتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرتا ہوا درخت، صحت مند درختوں کے وسیع نیٹ ورک کا حصہ بن جاتا ہو۔
اس تحقیق پر میلبورن یونیورسٹی آسٹریلیا کے ماہرِنباتیات پروفیسر گریگ مور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخت اپنے وسائل بڑھانے میں بہت خود ہی مؤثر ہوتے ہیں۔ اس پورے واقعے میں قریب موجود درخت ایک دوسرے سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔