بابری مسجد فیصلے پر ہمارا اعتراض بنتا ہے؟ – ایاز امیر

0
700

ہندوستان میں شیوا جی کے بت بنیں یا وہ کچھ اور کریں‘ یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے۔ ہم رائے دے سکتے ہیں لیکن غم و غصے کی گنجائش نہیں رکھتے۔ بٹوارے کا غالباً مطلب ہی یہی تھا، اِدھر ہم اُدھر تم۔ تقسیم ہند کے بعد بھی بہت بڑی آبادی مسلمانوں کی ہندوستان میں رہ گئی لیکن بٹوارے کا منطقی نتیجہ تھا کہ وہ آبادی حالات کے رحم و کرم پہ رہ گئی۔
یہ درست ہے کہ ہندوستانیوں نے اپنی ریاست کی بنیاد سیکولرازم کو بنایا یعنی ریاست کے امور میں مذہب کا عمل دَخل نہیں ہو گا۔ ہندوستانی آئین کی رو سے مسلمان برابر کے شہری ہیں‘ دوسرے درجے کے نہیں۔ قانون کے سامنے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔ مسلمان ہندوستان کے صدر رہ چکے ہیں اور آئینی اعتبار سے ایک مسلمان ہندوستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اِس صورت حال میں تبدیلی آ رہی ہے۔ آئین تو وہی ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن روزمرّہ زندگی میں مسلمانوں کے خلاف تعصب بہت بڑھ چکا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بھارتیہ جتنا پارٹی کے انتہاء پسند ارکان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست کی بجائے ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ یہ تو کوئی کھل کے نہیں کہہ رہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ جانا چاہیے لیکن انتہاء پسندانہ ہندو سوچ کے پیچھے یہی نظریہ ہے کہ ہندوستان ہندو ریاست ہے اور اِس میں اقلیتوں کا درجہ دوسرے درجے کے شہریوں کا ہے۔

ایسی باتیں کانوں کو اچھی نہیں لگتیں لیکن ہم پاکستانی اِن پہ اعتراض کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان سیکولر ریاست نہیں۔ یہ ایک مسلم ریاست ہے اور اِس کی بنیاد مذہب ہے۔ اگر ہندوستانی مذہبی ریاست کی طرف جانا چاہتے ہیں اور وہاں کی حکمران جماعت کی یہ سوچ ہے تو یہ عجیب لگتا ہے جب پاکستانی کہیں کہ ہندوستانی اپنے سیکولر ازم سے ہٹ رہے ہیں۔ ہمارا تو یقین ہی سیکولر ازم پہ نہیں ہے۔ پھر سیکولر ازم سے ہٹنے کا طعنہ ہمارے لبوں سے انوکھا لگتا ہے۔ کل کلاں کو ہندوستانی سیکولر سوچ کو اپنے آئین سے مکمل طور پہ نکال بھی دیں تو کم از کم ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہرحال یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں ہم پاکستانی سیکولر ازم کو ایک اچھی سوچ نہیں سمجھتے وہاں ہندوستان کے مسلمان سیکولر ازم کو اپنے دفاع کے طور پہ دیکھتے ہیں۔ انگریزی کا ایک لفظ ایسے مخمصے کا احاطہ کرتا ہے : irony۔
1953ء کے پنجاب کے فسادات کے بعد منیر انکوائری کمیشن کے سامنے یہ سوال اُٹھا گیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق مسلم ریاست میں کس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بیشتر علمائے کرام بشمول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے منیر کمیشن کے سامنے یہ مؤقف اختیارکیا کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ یعنی وہ نچلے درجے کے شہری رہیں گے۔ علمائے کرام سے پوچھا گیا کہ اِس تناظر میں ہندوستان میں اگر ہندو ریاست بنتی ہے تو وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کیا ہوں گے؟ تو علمائے کرام نے برملا کہا کہ وہاں وہ بھی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ اِس جواب سے جج صاحبان تو پریشان ہوئے لیکن مولانا صاحبان اپنے مؤقف پہ ناخوش نظر نہ آئے۔

ہندوستانی مسلمان ایسی منطق کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں یہ الگ بات ہے۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادیوں کا تبادلہ ہوا‘ خاص طور پہ پنجاب کی سرزمین پہ جہاں خون کی ندیاں کیا دریا بہے لیکن ظاہر ہے کہ مکمل تبادلہ نہ ہوا نہ ہو سکتا تھا۔ سارے اگر نہیں تو بیشتر ہندو اور سکھ پاکستان سے ہندوستان چلے گئے لیکن مسلمان آبادی کی تعداد ہندوستان میں اِس نوعیت کی تھی کہ مکمل کی مکمل آبادی یہاں نہیں آ سکتی تھی۔ جتنی کل آبادی پاکستان کی 1947-48 میں تھی تقریباً اتنی ہی مسلمان آبادی ہندوستان میں رہ گئی۔ پاکستان اُس آبادی کا ضامن ہو نہیں سکتا تھا۔ جو مسلمان ہندوستان رہ گئے تھے اُن کا ضامن وہاں کے حالات اور وہاں کا سیکولر ازم تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہندوستانی سیکولر ازم ہی ہندوستان کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے سے بچاتا تھا۔ لہٰذا ہندوستان کے مسلمانوں کا اولین مفاد یہ تھا کہ ہندوستانی سیکولر ازم قائم و دائم رہے اور ہندو متعصبانہ سوچ اُسے نہ لگے۔

کانگریس پارٹی اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے لیڈر ہندوستانی سیکولر ازم کے علم بردار تھے۔ لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں کا مفاد کانگریس پارٹی سے جڑا ہوا تھا۔ کانگریس پارٹی کی سوچ غالب رہتی‘ اُسی میں ہندوستانی مسلمانوں کی بقاء تھی۔ ہندو متعصب سوچ ہی تھی جس کے نتیجے میں مہاتما گاندھی کا قتل ہوا۔ ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہاں کی سیکولر سوچ کمزور ہوئی اور ہندو متعصب سوچ نے اتنی طاقت پکڑی کہ وہ آج اقتدارمیں ہے۔ فیصلہ بیشک ہندوستان کی سپریم کورٹ کا ہے۔ بنیادی نکتہ بہرحال یہی ہے کہ رام مندر جیتا اور بابری مسجد ہاری۔ لیکن کیا ہمارا اعتراض اِس پہ بنتا ہے؟ تقسیم ہند کی لازمی منطق ہی یہی تھی کہ ایسے واقعات رونما ہونے تھے۔ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تقسیم ہند غلط تھی۔ بہرحال جو اُس کے لازمی نتائج تھے وہ تو ذہنوں میں رہنے چاہئیں۔ ایک لازمی نتیجہ یہ تھا کہ جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے اُن کا مستقبل خطرے سے خالی نہ ہو گا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اِسی امر کی طرف اشارہ کیا تھا جب اُنہوں نے اپنی جامع مسجد دہلی کی تقریر میں تقریباً رو رو کے کہا تھا کہ کہاں جا رہے ہو، اپنی ہزار سالہ حکمرانی کی نشانیاں کیوں چھوڑ کے جا رہے ہو؟ انہوں نے یہ بھی انتباہ کی تھی کہ تمہاری طاقت تقسیم ہو جائے گی۔ کیا دور دیکھنے والی اُن کی نظر تھی۔ بر صغیر کے مسلمان آج تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں: بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان۔ ہندو آبادی ہندوستان میں قائم ہے اور منقسم نہیں ہوئی۔

یہ تو تاریخ کی باتیں یا تلخیاں ہیں۔ ماضی تو نہیں مٹایا جا سکتا لیکن حال اور مستقبل کیلئے تو کچھ ہو سکتا ہے۔ ہندوستان اگر متعصبانہ سوچ کی طرف جا رہا ہے تو ہمیں دوسری طرف جانا چاہیے۔ یعنی ہندوستان جتنا تعصب اور تنگ نظری کی ہواؤں میں گم ہوتا ہے پاکستان کو تنگ نظری سے نکل کر روشن خیالی کی طرف جانا چاہیے۔ ایسا ہم کرتے ہیں یا نہیں یہ اور بات ہے۔ لیکن ہندوستان کا ہندو راج کی طرف جانا ہمارے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ ہمیں تو دعا کرنی چاہیے کہ ہندوستان اور تنگ نظری میں جائے اور یہی فرق اُس میں اور ہم میں بنے۔ ماضی کے اندھیروں سے نکل کر ہم دوسری طرف چلیں اور ایک ایسا تعصب اور نفرت سے پاک معاشرہ بنائیں جسے دنیا دیکھ کے حیران ہو۔ پروگریسیو سوچ ہماری ہونی چاہیے۔ اقلیتیں یہاں اقلیتیں نہ رہیں بلکہ پہلے اور آخر پاکستانی ہوں۔ یہ اقلیتوں کا لیبل ہی بڑا عجیب ہے۔ جو پاکستانی یورپ یا امریکا میں ہیں اُن کو کیا اقلیت کہا جاتا ہے؟ ہندو، سکھ یا مسلمان انگلستان میں ہوں تو وہ انگلستان کے شہری کہلاتے ہیں ، اقلیتی نہیں۔

قائد اعظم ایسی ہی ریاست چاہتے تھے۔ 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے سامنے اُن کی تقریر میں اُس سے زیادہ واضح بیان نہیں ہو سکتا۔ واشگاف الفا ظ میں انہوں نے کہا کہ گو آپ کا مذہب اپنا اپنا ہو سکتا ہے سیاسی لحاظ سے اب آپ ہندو، سکھ اور مسلم نہیں رہے۔ آپ نئی ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔ چاہے آپ اپنے مندروں میں جائیں یا مسجدوں میں۔ بانیٔ پاکستان کی یہ سوچ تھی۔ ہمارا المیہ ہے کہ اُس سوچ کو ہم نے مسخ کیا اور اُس پہ طرح طرح کے مفہوم چڑھائے۔ ایسا کرنے سے نقصان ہمارا ہوا اور بطور ملک ہماری حیثیت کم ہوئی۔
بہرحال ہندوستان ہمیں موقع فراہم کر رہا ہے کہ ہم بانیٔ پاکستان کی سوچ کی طرف لوٹیں اور ایسا پاکستان بنانے کی ابتداء کریں جیسا وہ چاہتے تھے۔ ایسا ہم کر لیں تو اِس سے بہتر جواب ہم ہندوستان کو نہیں دے سکتے۔ کوئی ٹینک، کوئی ہوائی جہاز، کوئی ایٹم بم اتنا بھاری ثابت نہ ہو جتنا کہ بانیٔ پاکستان کی سوچ کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here