فلسطین میں یہودی آبادکاری

0
681

دو روزہ شدید جھڑپوں اور کم از کم 34 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد بظاہر اسرائیل اور فلسطین کی حریت پسند تنظیم ” اسلامک جہاد” کے مابین فائر بندی ہو گئی ہے، تاہم دونوں علاقوں میں زندگی ابھی تک مفلوج ہے۔ اسلامک جہاد کے ترجمان مصعب البریم کا کہنا ہے کہ مصر کی ثالثی میں ہونے والا امن معاہدہ گزشتہ روز نافذ العمل ہو ا، تاہم اسرائیل نے اس فائر بندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔ دیکھاجائے تو ماضی میں بھی اسرائیل نے فلسطینی حریت پسند تنظیموں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی عوامی سطح پر تصدیق، بہت ہی کم دیکھنے کوآئی، تاہم اسرائیلی حکومت نے ملک کے جنوب میں متعدد علاقوں کے رہائشیوں کو باہر نکلنے اور روزمرہ کے معمولات انجام دینے کی اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ اسلامک جہاد اور اسرائیل کے مابین دو روز پہلے جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب اسرائیل نے فلسطینی حریت پسند تنظیم کے ایک اعلیٰ کمانڈر کو فضائی کارروائی کرتے ہوئے قتل کر دیا۔ اسرائیل نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم سرحد عبور کرتے ہوئے دراندازی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

مسئلہ فلسطین دنیا کا پیچیدہ، قدیم اور حساس مسئلہ ہے۔ اس قضیے میں مذہب، نسل اور کلچر کے تمام تر تضادات اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ زمینی حقائق کی بات کریں تواس وقت موجودہ اسرائیل کا رقبہ تقریباً اکیس ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی انسٹھ (59) لاکھ ہے۔ اس آبادی میں یہودیوں کی تعداد اڑتالیس (48) لاکھ ہے اور عربوں کی تعداد گیارہ (11) لاکھ ہے۔ اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ میں جس علاقے پرقبضہ کیا تھا، فلسطینی قیادت کا دعویٰ ہے کہ یہی مستقبل کی فلسطینی ریاست ہے، یہ دعوی غلط بھی نہیں۔ اس میں سے ایک علاقہ دریائے اردن کے مغربی کنارے سے اسرائیل کی سرحد تک ہے۔ اس علاقے کا رقبہ چھ ہزار مربع کلو میٹر سے کچھ کم ہے اور اس کی آبادی بیس(20) لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے علاقے کو غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے۔ یہ اسرائیل کی مغربی سرحد، مصر اور بحیرہ روم میں گھری ہوئی ایک چھوٹی سی پٹی ہے، جس کا رقبہ تین سو سا ٹھ(360) مربع کلو میٹر ہے اور اس کی آبادی گیارہ(11) لاکھ کے قریب ہے۔ گویا فلسطینی ریاست میں اکتیس(31) لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ اس علاقے کی قدیم تاریخ کے مطابق، 2500 قبل مسیح میں عرب کے علاوہ کنعان سے لوگ آکر یہاں آباد ہوئے۔ اس کا قدیمی نام”کنعان” بھی ہے۔ اس کے بعد ایشیائے کوچک کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں آکر آباد ہوئے، انہیں فلسطی کہا جاتاتھا؛چنانچہ اس علاقے کانام فلسطیوں کی آبادکاری سے ”فلسطین” پڑا۔ جلد ہی یہ دونوں گروہ آپس میں پوری طرح گھل مل گئے۔ جب رومیوں نے یہودیوں کو جلاوطن کر دیا۔ اس کے بعد یہ قوم اٹھارہ سو سال تک تتر بتر رہی۔ اسے یہودیوں کی اصطلاح میں ”Diaspora” کہا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر جگہوں میں یہودیوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے، تاہم سپین کے مسلم عہد اور شمالی یورپ کے بعض ممالک میں ان سے اچھا سلوک کیا گیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے ساتھ یہودیوں کا بھی خوب قتل عام کیا۔ عثمانی ترکوں کے عہد میں بھی ان کے ساتھ مناسب سلوک کیا گیا۔ مسلمانوں کے عہد میں یہود ونصاریٰ پرمظالم کم ہوئے، مگر آج وہی احسان فراموش قوم مسلمانوں کے خلاف ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ مغربی یورپ میں جمہوریت آنے پر یہودیوں کے ساتھ سلوک میں بھی بہتری آتی گئی، تاہم روس اور جرمنی میں ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا۔ زار روس ان کا سخت مخالف تھا۔ سترہویں صدی کے لگ بھگ یہودیوں میں اپنی کم مائیگی اور بے چارگی کا احساس پیدا ہونے لگااور مختلف مقامات پر یہودیوں نے اپنی مقامی تنظیمیں بنانی شروع کر دیں۔

یہودیوں میں یہ احساس بھی سترہویں صدی میں انتہا پسند یہودیوں نے پیداکیا تھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے، جہاں انہیں واپس جانا چاہیے، مگر اس کو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل جرمنی کے ایک مشہور دانش ور اور وکیل تھیوڈر ہرزل نے دی، جس نے 19ویں صدی میں صیہونیت (Zionism) کے نام سے یہ شروع کی۔ زایان یا صیہون دراصل یروشلم کے قریب ایک پہاڑی کا نام ہے۔ ابتدا میں یہ خیال بھی تھاکہ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے، جہاں یہودی امن سے رہ سکیں اور اس ضمن میں نظر انتخاب یوگنڈا پر گئی، تاہم یہودیوں کی اکثریت نے اسے نامنظور کر کے فلسطین ہی کو اپنا مقصد قرار دیا۔ 1881ء میں فلسطین میں صرف چوبیس (24) ہزار یہودی تھے۔ روس میں زار کے ظلم سے بچنے کے لیے بہت سے یہودیوں نے روس چھوڑ کر فلسطین کا رخ کیا؛ چنانچہ 1914ء میں فلسطین میں پچاسی (85)ہزار یہودی آباد تھے۔ اس وقت وہاں فلسطینیوں کی تعداد چھ (6)لاکھ تھی۔

انیسویں صدی میں سلطنت برطانیہ سب سے بڑی طاقت تھی مگر اس صدی کے دوسرے آخر میں جرمنی بھی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا۔ یہ دونوں اور یورپ کی باقی طاقتیں صنعتی اعتبار سے ترقی کے منازل طے کر رہی تھیں اور ظاہر ہے کہ ان کے درمیان خام مال، تیار مال کی فروخت اور دوسرے وسائل کے لیے مقابلہ لازمی تھا؛چنانچہ ایک طرف برطانیہ، فرانس اور روس کا اتحاد بن گیااور دوسری طرف جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور ہنگری کا اتحاد بنا۔ جب پہلی جنگ عظیم 1914ء میں چھڑ ی توترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور روسی بندرگاہوں پر حملہ کر کے اپنی طرف سے جنگ کی ابتدا کر دی۔ برطانیہ اور اس کی اتحادی افواج کا ترکی اور مضافات جن میں فلسطین بھی شامل تھا، ٹارگٹ کے لیے اہم علاقہ بنا۔

پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے ترکی کو شکست دینے کے لیے اہم منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت برطانیہ نے ایک طرف دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت حاصل کر نے کی کوشش کی۔ دوسری طرف برطانیہ نے ان عرب طاقتوں کی حمایت کا اعلان کیا، جو ترکوں سے برسرپیکار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کیمسٹری کا یہودی پروفیسر ڈاکٹر وائنر مین جو اس وقت صیہونی تحریک کا سربراہ تھا، اس نے برطانوی حکومت کو چند ایسی ایجادات بنا کر دیں، جن سے جنگ میں برطانیہ کا پلہ بھاری ہوا۔ اس کے عوض اس نے برطانوی حکومت سے یہ انعام مانگا کہ وہ یہ وعدہ کرے کہ جنگ عظیم میں کامیابی کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا ایک قومی وطن قائم کیا جائے گا؛ چنانچہ نومبر1917 ء میں وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک خفیہ خط کے ذریعے یہ وعدہ کیا۔ اس خط کو عرف عام میں ”اعلان بالفور” کہا جاتا ہے۔ برطانیہ کے اس معاہدے کا راز1917 ء میں روسی حکومت اس وقت منظر عام پر لائی، جب جنگ عظیم اول کے درمیان روس میں کمیونسٹو ں نے زار کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کی تھی۔ اس کے بعد اگلے تیس(30) برسوں میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے لیے جائز و ناجائز ہتھکنڈوں سے کام لیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here