زراعت تقدیر کا کھیل ہے۔ وہ مہربان ہو تو کھیت لہلہاتے ہیں اور منڈیاں اناج سے بھر جاتی ہیں وہ نامہربان ہو تو ہمارا کاشتکار اس پر صبر
شکر کر کے آیندہ کی فصل سے امید لگا لیتا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے جس کا بیج آج کل بویا جا رہا ہے، حکومت نے گندم کی
امدادی قیمت میں بروقت اضافہ کر کے کاشتکاروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ گندم زیادہ اگائیں تا کہ ملک کی ضرورت پوری ہوتی رہے اور زرعی ملک کو گندم درآمد نہ کرنی پڑے بلکہ ہم گندم برآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہوجائیں۔ یہ سب اللہ تبارک تعالیٰ کی مہربانی اور کرم ہے کہ کاشتکاروں کو ان کی مرضی کا موسم نصیب ہو جس کی بدولت وہ فصل کی زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔
اس پر اگر مناسب حکومتی پالیسیاں جن میں کاشتکاروں کو مراعات حاصل ہوں وہ سونے پہ سہاگے کا کام کرتی ہیں۔ ہماری صنعت کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے لیکن ہماری اصل معیشت زراعت کی معیشت ہے۔ میں خود ایک کاشتکار ہوں جو کلی طور پر قدرت کے رحم و کرم پر زندہ ہے کیونکہ ہمارے بارانی علاقے میں زمین بارش سے زندہ ہوتی ہے اور یہ بارش حاصل کرنے میں ہمارا اختیار نہیں ہوتا بلکہ ہم بارانی علاقوں کے کاشتکار اپنی کل جمع پونجی جو اکثر اوقات اگلی فصل کے بیج پر مشتمل ہوتی ہے اس جمع پونجی کو زمین میں ڈال کر اللہ تعالیٰ سے اچھے دنوں کی آس لگا لیتے ہیں بارانی علاقوں کے کاشتکار کی نظریں اللہ تعالیٰ کے ابر کرم کی منتظر رہتی ہیں۔
یہ سب اللہ تبارک تعالیٰ کا فضل و کرم ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا رہتا ہے۔ کرتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتے ہیں نہیں کرتا تب بھی اس کا شکر ہے۔ ہم بے بس انسان سوائے شکر کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ صبر اور برداشت ایک کاشتکار کا وصف ہے۔
میں چونکہ زراعت کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں اس لیے کاشتکار بھائی مجھے اپنا سمجھتے ہوئے اپنی شکایات اور گزارشات سے مجھے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ ایک کاشتکار بھائی نے اطلاع دی ہے کہ اس دفعہ اگر سبزیوں کے نرخ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو یہ کاشتکاروں کے لیے نیک شگون ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے کی فصلوں میں نقصان برداشت کر چکے ہیں۔
انھوں نے گلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نقصان کا کہیں ذکر نہیں ہوتا اگر کسی فصل کے اچھے نرخ مل جائیں تو شہر میں رہنے والوں کی شکایتوں سے آپ اپنے اخبار بھر دیتے ہیں۔ اسی طرح میرے ایک عزیز اعجاز نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے کاشتکاروں کی ترجمانی کی ہے وہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے گلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “ہم سیکڑوں روپے کے کلو انگور اور آلو بخارے کھاتے ہیں دو سو روپے ملنے والا چکن ہوٹل سے پندرہ سو روپے میں کھاتے ہیں، سادہ ٹی وی خریدنے کے بجائے لاکھوں روپے کی بڑی اسکرین خریدتے ہیں۔
دوستوں کی دعوت گھر میں کرنے کے بجائے ہوٹل میں کرتے ہیں اور ہزاروں روپے بل ادا کرتے ہیں اور ٹماٹر دو سو روپے کلو ہونے پراحتجاج کر رہے ہیں۔ کمال کرتے ہیں میرے پاکستانی بھائی بھی، کیا تمہیں پتا ہے کہ ایک کاشتکار سال میں تین سبزیاں کاشت کرتا ہے دو میں گھاٹا برداشت کرتا ہے اور کسی ایک فصل سے نفع کی امید رکھتا ہے۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں کو اور گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں فصلوں کو پانی لگاتا ہے گوڈی کرتا ہے تب کہیں جا کر تمہارے لیے سبزیاں اور اناج تیار کر پاتا ہے اور تم اسے اس کا جائز منافع بھی دینے کو تیار نہیں ہو۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ کبھی کسی بڑے ہوٹل پر جا کر احتجاج کیا ہے کہ دو سو روپے ملنے والے چکن کو کس مصالحے میں پکاتے ہو کہ اس کی پندرہ سو روپے قیمت لے رہے ہو۔ کبھی کسی برگر کی دکان پر جا کر احتجاج کیا ہے کہ وہ چکن کے ایک ٹکڑے کے سیکڑوں روپے کیوں لے رہے ہیں۔ کبھی اس پر احتجاج کیا ہے کہ پیزے کی شکل میں ایک میدے والی روٹی پر چکن کے چند ٹکڑے لگا کر اس کے بھی ہزاروں روپے وصول کیے جارہے ہیں “۔ عزیزم اعجاز کا شکوہ بجا ہے انھوں نے ہم سب کو آئینہ دکھایا ہے اور کاشتکاروں کی ترجمانی کی ہے۔
کاشتکاروں کا یہ شکوہ بھی درست ہے کہ آڑھتی ان کی فصل کی وہ قیمت نہیں لگاتے جو ان کا حق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ منڈی میں پہنچنے والی سبزیاں جلد خراب ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے آڑھتی اپنی مرضی کی قیمت لگاتے ہیں۔ کاشتکاروں کا تما م تر دارومدار مہنگے ڈیزل سے چلنے والے زرعی آلات پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے فصل کی کاشت پر اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
کھادوں کے نرخ بھی بڑھتے رہتے ہیں اس لیے لازم ہے کہ حکومت کاشتکاروں کے اصل مسائل پر توجہ دے اور ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فصلوں کی کاشت میں استعمال ہونے والی اشیا ان کو مناسب قیمتوں میں فراہم کی جائیں تا کہ منڈیوں میں ان کی پیداوار کی مناسب نرخوں پر فروخت ہو۔ حکومت کاشتکاروں کی صرف جائز مددکرتی رہے تب بھی زرعی پیداوار میں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔
کھاد کے مناسب نرخ خالص ادویات کی فراہمی، موزوں بیجوں کا بروقت انتظام اور اس طرح کی دوسری ضروریات اگر مناسب نرخوں پر فراہم کی جائیں تو باقی کام کاشتکار خود کرتا ہے اور کرتا چلا آرہا ہے۔ اسے تو محکمہ زراعت کے ماہرین کی مدد بھی صرف کاغذوں میں ملتی ہے۔ کاشتکاری میں اس کا تجربہ اس کا رہنماء اور استاد ہے حالانکہ جدید سائنسی دور میں زرعی تحقیق کے اداروں کی مدد بہت ضروری ہے۔
کاشتکار ایک ایسا جانور ہے جو اپنی روزی خود تلاش کرتا ہے، دودھ اور گوشت فراہم کرتا ہے۔ مگر نہ ہڑتال کرتا ہے نہ جلسہ جلوس نکالتا ہے نہ ایک پائی کا ٹیکس چراتا ہے اور نہ حکمرانوں سے مذاکرات کرتا ہے وہ صرف زمین آراستہ کرتا رہتاہے اور اللہ تبارک تعالیٰ سے امید باندھ لیتا ہے۔ اگر حکومت زراعت کی بہتری کے لیے کام کرے تو پھر کسی کو ٹماٹر یا کسی اور سبزی کے نرخوں میں اضافے کی شکایت نہیں ہو گی۔ زراعت پاکستان جیسے ملک کی زندگی ہے اور یہی زراعت اس ملک کو عزت و آبرو کی زندگی دے سکتی ہے۔