ویسے تو ہمارے ہاں کئی طرح کی مخلوق پائی جاتی ہے پر ایک مخلوق کا نہ تو کوئی ثانی ہے، نہ کوئی توڑ اور نہ تدارک۔ اس مخلوق کا نام ہے ”
ھنڈے ڈرائنگ روم کے صوفہ پسند دانشور”۔ اس مخلوق کا اپنا نظامِ دلائل ہے۔ کسی لبرل سے دشمنی ہو تو مولوی کی حمایت کا اعلان کر دیتے ہیں اور جب مولوی ان کی پسند ناپسند پر پورا نہ اترے تو پھر اپنے صوفے میں دھنستے ہوئے کہتے ہیں ” دیکھا ہم نہ کہتے تھے مولوی آخر مولوی ہی ہوتا ہے”۔
تازہ ترین ثبوت مولانا فضل الرحمان کا حالیہ دھرنا تھا۔ میرے کئی دوستوں نے کہا یہ ہے انقلابی مولوی، یہی عمران خان جیسے جعلی کو منہ دے گا۔ اور جب دھرنے کی تصاویر میں سب مرد نظر آئے تو ان دوستوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے۔ ارے یہ کیسا دھرنا ہے جس میں عورتوں کی نمایندگی ہی نہیں۔ نہیں نہیں ہم ایسے دھرنے کی حمایت نہیں کر سکتے۔ گویا اب تک ان لال بھجکڑوں کا خیال تھا کہ اس دھرنے سے پہلے تک مولانا کی ریلیوں میں خواتین باقاعدگی سے شریک ہوتی تھیں۔
ویسے ان لال بھجکڑوں کو مولانا کے دھرنے میں عورتوں کا نہ ہونا اتنا کیوں برا لگا؟
ان میں سے کس نے اپنے آس پاس کبھی خواتین جیولرز دیکھی ہیں؟ میں نے تو آج تک مرد سناروں کو ہی ٹیکہ، نتھ، کڑا، گلو بند، پازیب بناتے دیکھا۔ کانچ کی چوڑیاں پہنتی عورتیں ہیں مگر بیچتے مرد ہیں۔ برقعے عربی ہوں کہ شٹل کاک کہ ٹو پیس، سیاہ ہوں کہ سفید یا نیلے۔ پہنتی خواتین ہیں مگر سیتے مرد ہیں۔ خواتین کا ہارسنگھار مرد بیچتے اور سراہتے ہیں۔ خواتین کے جوتے اور چپلیں مرد بناتے ہیں۔ فیشن ڈیزائنر مرد ہیں۔ گھر کے چولہے کی ٹھنڈی چپاتی پر گرم طلاق ہوجاتی ہے لیکن دنیا کے ننانوے اعشاریہ نو فیصد شیف، باورچی اور نانبائی مرد ہیں۔
کون سا اشتہار ہے جس میں عورت نہ ہو۔ لیکن پوری اشتہاری کمپین میں فوٹو گرافر اور کاپی رائٹر سے لے کر پینا فلیکس بنانے والے تک سب مرد نہ ہوں۔ عالمی مقابلہِ حسن میں خواتین ماڈل اور جج مرد۔ ہر ملک کی ایک عددِ خاتونِ اول ہوتی ہے۔ کبھی خاتون صدر یا وزیرِ اعظم سے ایک قدم پیچھے صاحب ِاول بھی دیکھا؟ مرد وہ ہاتھی جو مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا اور عورت وہ مٹھی جو بند ہے تو لاکھ کی کھل گئی تو خاک کی۔ ہماری یہی ذہنیت ہے نا؟
اچھا تو گھر کا سربراہ کون ہے؟ باپ، بیٹا، خاوند یا تینوں کی عدم موجودگی میں کوئی چچا یا ماموں؟ رشتہ کون طے کرتا ہے؟ لڑکی کی ماں یا باپ؟ نکاح کون پڑھاتا ہے؟ مرد یا عورت؟ گواہ کون ہوتا ہے مرد یا عورت؟ نکاح کے وقت لڑکی کی مرضی کون معلوم کرتا ہے؟ مرد یا عورت؟ رخصت کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت؟ جس قرآن کے سائے سائے رخصتی ہوتی ہے وہ کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے؟ مرد کے یا عورت کے؟ کئی برادریوں میں جائیداد کے بٹوارے کو روکنے کے لیے عورت کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے؟ کبھی اس بابت حرام حلال کی بحث سنی؟
یہ کون بتائے گا کہ عائلی قوانین مجریہ انیس سو باسٹھ کے تحت جاری شدہ سرکاری نکاح نامہ ہر نکاح خواں کے لیے مباح ہونے کے باوجود وہ اس نکاح نامے کی شق نمبر اٹھارہ بنا کسی سے پوچھے خود بخود کیوں کاٹ دیتا ہے کہ جس میں لکھا گیا ہے کیا دولہا یہ حق دے گا کہ دلہن طلاق کا حق استعمال کرسکے؟ اگر یہ شق غیر شرعی ہے تو اب تک نکاح فارم میں کیوں ہے؟ کسی نے اب تک باقاعدہ چیلنج کیوں نہیں کیا۔ اور جب تک اس بارے میں کوئی سرکاری یا عدالتی فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک نکاح خواں اسے کس اختیار کے تحت اپنے بال پوائنٹ سے کاٹ سکتا ہے؟
جو عورت ایامِ حج میں طوافِ کعبہ میں برابری کے ساتھ حصہ لیتی ہے۔ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھتی ہے۔ اسی عورت کو کبھی محلے کی مسجد میں کسی امام نے نماز ادا کرنے یا عورتوں کو مسجد میں نمازِ باجماعت کے اہتمام کی بخوشی یا ناخوشی اجازت دی؟ کیا ایسا کسی شرعی پابندی کے سبب ہے یا اس پابندی کے پیچھے کوئی سماجی رواجی رکاوٹ ہے؟
بالکل ایسے ہی جیسے ترکے کے بٹوارے کی بات آئے تو ماں اور بیٹیوں کے لیے ہم میں سے بہت سوں کو شریعت کے بجائے رواج یاد آنے لگتا ہے۔ تو پھر یوں کیوں ہے کہ شریعت سے متصادم سیکڑوں رواجات حرام قرار دیے گئے اور بعض حرام رواجات کو کھل کے حرام کیوں نہیں کہا جاتا یا سکتا؟ ( اب تو خیر سے گزشتہ ہفتے عورتوں کو ترکے میں لازمی حصہ دینے کے بارے میں ایک آرڈیننس بھی جاری ہو گیا ہے۔ مگر اس آرڈیننس کی عمر کتنے ماہ ہے اگر اسے پارلیمنٹ منظور نہ کر پائی )۔
جرگے کے فیصلے میں دو خاندانوں، دو برادریوں اور دو قبائل کی دشمنی ختم کرانے کے لیے عورتوں کو ہی کیوں بطور ہرجانہ تبادلہ کرکے بیاہا جاتا ہے۔ لڑکا بطور ہرجانہ کیوں مانگا یا دیا نہیں جاتا؟ آخر سندھ میں بالخصوص زیادہ تر خوبرو ہندو لڑکیاں ہی کیوں کلمہ پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ ہندو لڑکوں کو مسلمان ہونے میں اتنی دلچسپی کیوں نہیں؟
جتنی بدکار کاریاں قتل ہوتی ہیں اتنی ہی تعداد میں کیا بدکار کارے بھی مارے جاتے ہیں؟ کیا کاریوں کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے؟ کیا انھیں عمومی قبرستانوں میں ہی دفنایا جاتا ہے؟
شرع میں کیا شرم۔ چنانچہ اکثر علما یہ تو کھول کھول کے بتاتے ہیں کہ نیک آدمی کو جنت میں اجر کن کن شکلوں میں ملے گا۔ مگر یہ حسرت کب پوری ہوگی کہ کسی بھی جمعے کو کسی مولوی صاحب سے یہ بھی تفصیلاً سنوں کہ متقی اور پرہیز گار، باحیا و باعصمت و فرمانبردار عورت کے لیے جنت میں کن کن اعمال کے عوض کن کن اور کیسی کیسی نعمتوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بہت سے علما جہنمی خواتین و حضرات کو ملنے والی ممکنہ سزاؤں اور عذابوں کا کھول کھول کے بلا تکلف بیان کرتے ہیں۔
اب تو خیر داعش کا تیا پانچا ہو گیا۔ لیکن جب داعش تین چار برس شام اور عراق کے چند علاقوں پر حکمران رہی تو اس پورے عرصے میں انتظار ہی رہا کہ “وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ” والے اقبال اور ” اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی عزت تم سے ہے ” والے الطاف حسین حالی کے کسی قدر دان عالم کی زبان سے یہ سوال سن سکوں کہ داعش والے یزیدی فرقے کی عورتوں کو بطور لونڈی کیوں منڈی لگا کے فروخت کررہے ہیں؟
میں اب بھی جاننا چاہتا ہوں کہ ان افعال کی فی زمانہ شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور پھر مفتوحہ علاقوں میں ایسے گروہوں کی دیگر زیادتیوں کی بابت آج کے فقیہانِ کرام برملا رائے دینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیا یہ سب فتنے اور فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے یا واقعی داعش کے حامی ہی وہ صالحین ہیں جو خالص شریعت کے اصل داعی اور محافظ ہیں؟ کوئی سرکردہ پاکستانی عالمِ دین کبھی غیر مبہم انداز میں اس کنفیوژن کو دور کرے گا یا دوربین کا رخ مغرب کی تہذیبی زناکاریوں کی جانب ہی رہے گا؟