دسمبر میں شانزے لیزے بدل جاتی ہے‘ یورپ میں نومبر میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں‘ شہروں کو روشنیوں میں نہلانے کا سلسلہ چل پڑتا ہے‘ آپ کسی کرسچین کنٹری میں چلے جائیں یہ آپ کو بدلا ہوا نظر آئے گا لیکن پیرس کی شانزے لیزے کی کیا ہی بات ہے‘ آپ جوں ہی دسمبر میں شانزے لیزے پر قدم رکھتے ہیں آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ملک کرسمس کا انتظار کررہا تھا لہٰذا جوں ہی نومبر آیا حکومت نے پورے ملک کی تخلیقی جادوگری اس ایک سڑک پر لگا دی۔
فرنچ گورنمنٹ ہر کرسمس کو ایک نیا تھیم دیتی ہے‘ میں پچھلے سال پیرس گیا تو پوری سڑک نیلی روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی‘ اس سے پہلے سفید کرسٹل جیسی روشنیاں تھیں
اور اس سال یہ پہلے سے آخری سرے تک سرخ روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی‘ حکومت نے تمام درختوں کو سرخ رنگ کی جھالروں میں چھپا دیا تھا‘ ہر جھالر میں چھوٹے چھوٹے بلب تھے‘ بلب سرشام جلا دیے جاتے تھے جس کے بعد آرک ڈی ٹرائی مف سے کنکورڈ تک شانزے لیزے کے دونوں سروں پر آگ سی لگ جاتی تھی‘ میں پیرس پہنچا‘ شانزے لیزے پر ہوٹل لیا اور تین دن اس سڑک پرگزار دیے‘ دن کا زیادہ وقت 120 سال پرانی کافی شاپ فوکٹ پر گزرتا تھا‘ فوکٹ پر بیٹھے بیٹھے پتا چلا سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن پر قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت دے دیا‘ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ سردی میں اچانک اضافہ ہو گیا تھا‘ لوگ سر اور گردنیں لپیٹ کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ میں بھی باہر نکلا اور ہجوم میں شامل ہو گیا‘لوگ چلتے جا رہے تھے اور میں بھی ان میں چپ چاپ چل رہا تھا اور بار بار اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا ہم کب ان لوگوں جیسے ہوں گے‘ مطمئن‘ مسرور اور بے خوف‘ مجھے ہر بار آخر میں سیاہ اندھیری غار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا‘ انسان کو ہمیشہ آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھنا چاہیے‘ یہ اچھی بات ہے لیکن گلاس کا ہونا بھی ضروری ہے‘ آپ کے سامنے اگر گلاس ہی نہیں ہوگا تو پھر آدھے بھرے یا آدھے خالی کا جواز ہی ختم ہو جائے گا‘ پھر دیکھنے کا امکان ہی جاتا رہے گا اور ہمارے سامنے گلاس ہی نہیں ہے۔
دنیا میں ایک دور بادشاہوں کا ہوتا تھا‘ بادشاہ بنتے تھے اور یہ پھر آخری سانس تک تخت پر جلوہ افروز رہتے تھے‘ بادشاہ کو موت کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا چناں چہ یہ بے چارے کسی نہ کسی سازش کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوتے تھے‘ آپ پوری انسانی تاریخ کھول کر دیکھ لیں آپ کو بادشاہ اپنی ملکاؤں‘ شہزادوں‘ وزیروں‘ وفاداروں اور غلاموں کے ہاتھوں مرتے دکھائی دیں گے‘ ملکہ یا ولی عہد بادشاہ کو زہر دے دیتا تھا یا پھر یہ کسی محلاتی سازش کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو تا تھا اور پھر کوئی دوسرا موت تک کے لیے تخت پر قابض ہو جاتا تھا۔
سپہ سالاروں‘ وزیروں‘ مشیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا‘ سپہ سالار کو قتل کر کے دوسرا جنرل سپہ سالار بن جاتا تھا‘ وزیر‘ مشیر اور جاگیردار بھی اپنی کرسی سے سیدھے جلاد کی تلوار کے نیچے جاتے تھے یا پھر باقی زندگی زندان میں گزارتے تھے‘ وہ ایک وحشت‘ درندگی‘ ابتری اور خلفشار کا وقت تھا‘ پورا پورا ملک بادشاہوں‘ شہزادوں اور طالع آزماؤں کی حرص کا نشانہ بن جاتا تھا‘ سروں کی فصلیں پکائی اور کاٹی جاتی تھیں‘ اقتدار کی ہر تبدیلی کا آغاز کھوپڑیوں کے میناروں اور شہروں کی راکھ سے ہوتا تھا لیکن پھر انسان نے سیکھا بادشاہوں کو ریٹائر بھی کیا جا سکتا ہے۔
یہ تخت کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہاں سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا‘ بادشاہ کا عہدہ حکمرانی میں تبدیل ہو گیا‘ حکمرانوں کو عوام منتخب کرنے لگے اور حکمران حکومت کے ذریعے عوام کی زندگی بہتر بنانے لگے‘ حکمرانوں کے بعد حکومتوں کے باقی پرزے بھی ریٹائر ہونے لگے‘ اس تبدیلی کے نتیجے میں دنیا میں امن‘ خوش حالی اور ترقی آنے لگی‘ آپ کسی دن دنیا کی صرف سو سال کی تاریخ پڑھ لیں‘ آپ کو 1900ء اور 2000ء میں زمین آسمان کا فرق ملے گا۔
دنیا آج جتنی سکھی اور خوش حال ہے سو سال پہلے انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور یہ معجزہ کیسے ہوا؟ اس کی پانچ بڑی وجوہات میں سے پہلی وجہ طاقت ور لوگوں کی ریٹائرمنٹ تھی‘ دنیا نے سیکھ لیا اللہ کی اس زمین کے لیے کوئی شخص ناگزیر نہیں اور ”میں اہم تھا‘ یہ میرا وہم تھا“ یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے چناں چہ حکمران ہوں یا پھر کارندے انہیں ریٹائر ہونا چاہیے‘ انہیں اپنی کرسی نئے لوگوں کے لیے خالی کر دینی چاہیے‘ اس ایک اصول‘ ایک روایت کے نتیجے میں شخصیات کے مقابلے میں ادارے مضبوط ہوئے۔
اداروں نے پرفارم کرنا شروع کیا اور اس پرفارمنس سے معاشرے اور ملک تبدیل ہوتے چلے گئے‘ امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے ہم نے کبھی سوچا‘ کیوں؟ وجہ سسٹم ہے اور یہ سسٹم کسی انسان کا محتاج نہیں‘ امریکی ادارے شخصیات سے بالاتر ہیں‘ امریکا میں پہلا الیکشن 1788ء میں ہوا تھا‘ امریکی الیکشن سسٹم کو آج 231 سال ہو چکے ہیں‘ آج تک امریکا کا کوئی الیکشن ملتوی ہوا اور نہ کسی صدر کو ایکسٹینشن ملی‘ فرینکلن روزویلٹ امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جو دو سے زیادہ مرتبہ صدر منتخب ہوئے جب کہ باقی تمام صدر زیادہ سے زیادہ دو بار صدر رہ سکے۔
جنگ ہو یا پھر زلزلے‘ آفتیں یا وبائیں امریکا کے صدارتی الیکشن وقت پر ہوتے ہیں اور صدر خواہ کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ ہو وہ بہر حال 20 جنوری کو وائیٹ ہاؤس خالی کردیتا ہے اور باقی تمام زندگی عام امریکی کی حیثیت سے گزارتا ہے‘ امریکا کے وزراء اور باقی عہدیدار بھی سسٹم کے تابع ہوتے ہیں‘ صدر ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لے یہ کسی کی مدت ملازمت میں ایک منٹ بھی اضافہ نہیں کر سکتا‘ آپ سسٹم کی خوب صورتی دیکھیے‘ امریکا نے ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لیے پاکستان سے 65 سال پرانے تعلقات داؤ پر لگا دیے لیکن جب قصاص کی باری آئی تو پھر صدر سمیت امریکا کے کسی عہدیدار کے پاس 20 کروڑ روپے ادا کرنے کی اتھارٹی نہیں تھی چناں چہ یہ رقم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پاکستانی خزانے سے ادا کرنا پڑ گئی۔
یہ ہوتا ہے سسٹم جب کہ ہم نے واپس بادشاہی نظام کی طرف دوڑ لگا دی ہے‘ ہم آج بھی شخصیات کو اداروں سے زیادہ مضبوط اور بلند سمجھتے ہیں۔میں اس وقت فرانس میں کھڑا تھا‘ فرانس کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے لیکن ملک میں پچھلے سال آٹھ کروڑ 69لاکھ سیاح آئے‘ فرانس آج بھی سیاحت میں پہلے نمبر پر ہے‘ یہ ملک زرعی تحقیق میں دنیا میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور انڈسٹری میں نویں نمبر پر ہے لیکن اس کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ صرف ڈیڑھ فیصد اور صنعتوں کا 17 فیصد ہے جب کہ یہ سروسز سیکٹر سے 70 اعشاریہ 24 فیصد دولت کما رہا ہے۔
فرانس نے یہ کیسے اچیو کیا؟ جواب سسٹم ہے‘ فرانسیسی قوم نے اپنے سارے ایشوز سو دو سو سال پہلے فکس کر دیے تھے‘ نظام صدارتی ہو گا‘ بلدیاتی ادارے وفاقی حکومت سے زیادہ مضبوط ہوں گے‘ عدلیہ انتظامیہ میں مداخلت نہیں کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ ججوں کو نہیں چھیڑے گی‘ یہ ملک اڑھائی ہزار ارب ڈالر کے جی ڈی پی پر کھڑا ہے جب کہ ہم 285 بلین ڈالرپر آ گئے ہیں اور اس سے بھی روزانہ نیچے جا رہے ہیں‘ ہم ایک ہی بار فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے‘ ہمیں اگر پارلیمنٹ یا الیکشنز پر اعتبار نہیں تو ہم اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟۔
ہم بادشاہی نظام لے آئیں‘ بادشاہ آئے اور انتقال تک تخت پر جلوہ افروز رہے یا شہزادہ اسے قتل کر دے اور قوم شہزادے کے ہاتھ پر بیعت کر لے‘ بادشاہ جسے چاہے اپنا وزیر‘ مشیر اور سفیر لگا دے‘ یہ اپنا چیف جسٹس بھی لے آئے اور جب تک چاہے لوگوں کو عہدوں پر رکھے اور جب چاہے ان کے سر قلم کر دے اور لاش چیلوں کوؤں کے لنچ کے لیے چھوڑ دے‘ بات ختم‘ ہم آخر کب تک آدھا تیتر اور آدھا بٹیر پکاتے رہیں گے اور ہمیں اگر جمہوریت چاہیے تو پھر ہم ایک ہی بار اصلی اور صاف ستھری جمہوریت کیوں نہیں لے آتے؟۔
ہم ایک خالص‘ صاف‘ شفاف اور بااختیار الیکشن کمیشن بنا دیں‘ یہ صاف اور شفاف الیکشن کرائے اور اقتدار منتخب پارٹی کے حوالے کر دے‘ ہم کیوں رات کے اندھیرے میں رزلٹ تبدیل کرتے ہیں‘ہم کیوں کم زور حکومتیں لے کر آتے ہیں اور پھر ان کی حماقتوں کا رونا روتے ہیں‘ یہ آخر کب تک چلے گا؟ ہم سرکاری عہدیداروں کے اختیارات‘ احتساب اور ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بھی ایک ہی بار کیوں نہیں کر دیتے؟ ملک کے لیے ایکسٹینشن ضروری ہے تو ہم وزیراعظم کو یہ اختیار دے دیں‘ یہ چیف جسٹس‘ آرمی چیف‘ چیئرمین نیب اور چیف الیکشن کمشنرسمیت تمام عہدوں پر اپنی مرضی کے لوگ لے کر آئے اور جس کی مدت میں جب چاہے اضافہ کر دے اور جس کو چاہے جب چاہے ہٹا دے‘ ملک کا کوئی ادارہ سوال نہ کر سکے۔
اور یہ اگرغلط ہے تو پھر ہم اس پر ایک ہی بار پابندی کیوں نہیں لگا دیتے‘ ہم یہ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے ہم صور اسرافیل کے وقت بھی کسی کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کریں گے‘ یہ بھی ساری فرسٹ ورلڈ میں ہو رہا ہے‘ جنگوں کے درمیان بھی کمانڈر ریٹائر ہوتے ہیں اور ان کی جگہ نئے آ جاتے ہیں‘ بھارت میں آرمی چیف کے ساتھ ہی اگلے آرمی چیف کا اعلان کر دیا جاتا ہے‘ اگلا آرمی چیف موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ساتھ ٹرینڈ ہو جاتا ہے اور کمانڈ کی تبدیلی سے ادارے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ہم آخر اندھیرے میں کیوں رہنا چاہتے ہیں‘ ہم ہر تین سال بعد ”دیں یا نہ دیں“ کے بخار میں کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ ہم دائیں یا بائیں حتمی فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم آخر شاہی یا جمہوری کسی ایک نظام کا انتخاب کیوں نہیں کر لیتے‘ ہم دونوں کو ساتھ ساتھ کیوں چلانا چاہتے ہیں‘ ہم دو کشتیوں کا سوار کیوں بننا چاہتے ہیں؟۔میرے سوال ختم ہو گئے‘ میں کنکورڈ پہنچ گیا لیکن مجھے اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملااور شاید مجھے کبھی کوئی جواب مل بھی نہ سکے‘ کیوں؟ کیوں کہ کنفیوز لوگوں کے سوال اور جواب دونوں برابر ہوتے ہیں۔