مجھے یہ واقعہ اسحاق ڈار نے سنایا تھا‘ آپ کو یاد ہو گا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے 2008ءمیں مشترکہ حکومت بنائی تھی‘ اسحاق ڈار اس مشترکہ حکومت میں بھی وزیر خزانہ تھے‘ وزارتوں کا فیصلہ ہو گیا‘ اسحاق ڈار فائنل ڈائیلاگ کے لیے زرداری ہاﺅس چلے گئے‘ یہ میٹنگ کے بعد رخصت ہونے لگے تو آصف علی زرداری نے بلا لیا‘ ان کے پاس اس وقت ایک اجنبی شخص بیٹھا تھا‘ زرداری صاحب نے اسحاق ڈار کو پنجابی میں کہا‘ حکومت اس سال گندم 625 روپے من کی بجائے 900 روپے من خریدے گی‘ آپ وزارت سنبھالنے کے بعد یہ آرڈر جاری کر دیجیے گا۔
ڈار صاحب نے پریشانی کے عالم میں اجنبی کی طرف دیکھا‘ زرداری صاحب بولے ”آپ نہ گھبرائیں‘
یہ ہمارے دوست ہیں‘ لال جی‘ یہ پاکستان میں گندم کے سب سے بڑے بروکر ہیں“ ڈار صاحب گھبرا گئے اور آہستہ سے بولے ”لیکن سر ہم 900 روپے من گندم خرید کر ملوں کو کتنے میں فروخت کریں گے“ زرداری صاحب نے جواب دیا ”625 روپے میں‘ عام لوگوں کو گندم سستی ملنی چاہیے“ ڈار صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ”سر لیکن حکومت 275 روپے کا نقصان کہاں سے برداشت کرے گی“ زرداری صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”ہم سبسڈی دیں گے اور یہ رقم اضافی نوٹ چھاپ کر پوری کر لیں گے“ ڈار صاحب نے کہا ”سر آپ یہ مجھے کہہ رہے ہیں‘ ٹھیک ہے لیکن کسی اور کو نہ کہیے گا‘ ہم پوری دنیا میں مذاق بن جائیں گے‘ اضافی نوٹ چھاپنے کا مطلب ہوتا ہے ہم ملک کو آگ لگا دیں“اسحاق ڈار ڈیڑھ ماہ مشترکہ حکومت کے وزیر خزانہ رہے‘ یہ اس دوران گندم کی قیمت پر ڈٹے رہے ‘ مئی 2008ءمیں وفاق میں مشترکہ حکومت ختم ہوگئی جس کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 29ستمبر2008ءکو گندم کی قیمت بڑھا کر 950روپے من کر دی اور یوں ایک رات میں لال جی نے اربوں روپے کی دیہاڑی لگالی اور ملک اور لوگ دونوں کے لیے دن گزارنا مشکل ہو گیا۔
یہ گندم جیسے ایشو پر حکومتی بے حسی کا ایک واقعہ ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو پتا چلے گا ملک کی ہر حکومت میں یہ ایشو لال جی جیسے بروکر کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور یہ لوگ اربوں روپے بنا لیتے ہیں جب کہ عوام کے لقمے کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں‘یہ ایشو ہے کیا ؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں‘ آپ پہلے دو حقائق نوٹ کر لیجیے‘ ہم زرعی ملک اور پانچ دریاﺅں کی زمین ہونے کے باوجود بنیادی خوراک درآمد کرنے والا ملک ہیں‘ پاکستان خوراک میں صرف چاول‘ چینی اور کینو برآمد کرتا ہے اور یہ بھی زیادہ مقدار میں نہیں ہوتے۔
ہم باقی ساری خوراک درآمد کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہیں لیکن آپ لطیفہ ملاحظہ کیجیے ہم دودھ‘ پنیر‘ مکھن اور ملک پاﺅڈر درآمد کرتے ہیں اور ہم کوکنگ آئل‘ سبزیاں‘ پھل‘ دالیں اور فیڈز کا را مٹیریل بھی امپورٹ کرتے ہیں چناں چہ ہم فوڈ کے ”نیٹ امپورٹر“ہیں یعنی دنیا اگر ہمیں خوراک نہ دے تو ہم چند ماہ میں قحط کا شکار ہو جائیں گے‘ دوسرا پوری دنیا میں سب سے مہنگی گندم پاکستان میں فروخت ہوتی ہے‘ پاکستان میں 310 ڈالر فی ٹن گندم بکتی ہے جب کہ عالمی مارکیٹ میں مہنگی سے مہنگی گندم بھی190ڈالر فی ٹن ہے اور یہ ان ٹھنڈے ملکوں کا ریٹ ہے جہاں آٹھ ماہ سردی پڑتی ہے۔
ہم اب موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں‘ پاکستان ہر سال 24 سے 25 ملین ٹن گندم پیدا کرتا ہے‘ پنجاب میں 19 ملین ‘ سندھ میں3.5 ملین ‘ بلوچستان میں9 لاکھ ٹن اور کے پی کے میں 11 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے‘ ہماری سالانہ ضرورت بھی کم و بیش اتنی ہے‘ فصل تیار ہونے کے بعد ملک کی 80 فیصد گندم پرائیویٹ بیوپاری‘ آڑھتی اور مل اونرز خرید لیتے ہیں جبکہ 20 فیصد گندم حکومت خرید کر سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کر لیتی ہے‘ یہ 20 فیصد کوٹہ ایمرجنسی اور مارکیٹ میں توازن قائم کرنے کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ کیوں؟
کیوں کہ اگر حکومت گندم ذخیرہ نہ کرے تو مارکیٹ لال جی جیسے مگر مچھوں کے ہاتھ میں چلی جائے اور یہ سفاک لوگ لوگوں کو بھوکا مرنے پر مجبور کر دیں چناںچہ حکومت بازار کی ڈیمانڈ دیکھ کر اپنی گندم مارکیٹ میں ڈالتی رہتی ہے تاکہ بحران بھی پیدا نہ ہو اور بیوپاری بھی من مانی نہ کر سکیں‘ یہ 20 فیصدکوٹہ بہت زیادہ ہے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت ملک میں گندم کی سب سے بڑی خریدار ہے‘یہ ہر سال مئی سے جولائی کے دوران 250 سے 300 ارب روپے کی گندم خریدتی ہے۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان میں بینکوں کا سب سے بڑا کاروبار گندم ہے‘ بینک گندم کی خریداری کے موسم میں صوبائی حکومتوں کو قرضے دیتے ہیں‘ حکومتیں ان قرضوں سے گندم خریدتی ہیں اور گندم مارکیٹ میں سپلائی کر کے بعد ازاں بینکوں کو قرضہ ادا کر دیتی ہیں‘ گندم کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا یہ سسٹم انگریز نے بنایا تھا اور یہ آج تک بڑی مہارت سے چل رہا ہے‘ انگریز کے دور سے صوبوں سے تجربہ کار افسر بلا کر وفاق میں لگائے جاتے تھے۔
یہ افسر کیوں کہ سارے سسٹم کو جانتے ہیں چناں چہ یہ صورت حال کو کنٹرول کر لیتے تھے‘ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں چودھری پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف روز فوڈ سیکرٹری سے ملاقات کرتے تھے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے تھے گندم کی سپلائی کا سسٹم پروفیسر ڈاکٹر جیسا ہوتا ہے جس طرح پروفیسر روز وارڈ کا معائنہ کرتا ہے‘ مریض کو خود دیکھتا ہے اور جونیئر ڈاکٹروں کو ہدایت دیتا ہے بالکل اسی طرح صوبوں اور وفاق کے سیکرٹری فوڈ روز صورت حال کا معائنہ کرتے ہیں۔
یہ مارکیٹ اور سٹاک کا معائنہ کرتے ہیں اور روز گندم ہولڈ یا ریلیز کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں اور صورت حال وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں کے نوٹس میں لاتے ہیں‘ صوبائی حکومتیں پچھلے 72 برسوں سے تمام افسروں کو دائیں بائیں کرتی چلی آ رہی ہیں لیکن یہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کو نہیں چھیڑتیں‘ فوڈ سیکرٹری بھی کم سے کم دو اڑھائی سال اپنی پوسٹ پر رہتا ہے اور ڈی جی اور ڈائریکٹرز بھی‘ یہ حکومتیں جانتی ہیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کے تبادلے کا نتیجہ صوبے میں قحط کی شکل میں نکلے گا۔
یہ سسٹم معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی‘ یہ لوگ ناتجربہ کار تھے‘ عثمان بزدار اور محمود خان نے ضلعی حکومت تک نہیں چلائی تھی چناں چہ انہوں نے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو بھی اتھل پتھل کر دیا‘ وفاق میں آفس مینجمنٹ گروپ کے افسر ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کو سیکرٹری فوڈ سیکورٹی لگا دیا گیا‘ یہ شریف اور ایمان دار افسر ہیں لیکن انہوں نے کبھی فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں کام نہیں کیا ‘ یہ سسٹم کو سرے سے نہیں جانتے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 16 ماہ میں پانچ بار صوبائی سیکرٹری فوڈ تبدیل کر دیے‘ راولپنڈی کا ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ انتہائی اہم ہوتا ہے کیوں کہ بلتستان‘آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر موجود فوجی جوانوں کو آٹا بھی راولپنڈی سے سپلائی ہوتا ہے‘ عثمان بزدار نے اس پوسٹ سے تجربہ کار افسر ہٹا کر یہ پوزیشن 16 گریڈ کے ایک ٹیچرسلمان علی کے حوالے کر دی‘ سلمان علی پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہوں گے لیکن یہ فوڈ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں جب کہ پنجاب کے سیکرٹری فوڈ اس وقت ظفر نصر اللہ ہیں۔
ان کی شہرت بھی اچھی نہیں‘ میاں شہباز شریف نے دس سال کی مدت میں انہیں پنجاب میں گھسنے نہیں دیا تھا جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے انہیںاس نازک پوسٹ پر لگا دیا‘ وزیراعظم بھی گندم کی خریداری کے سسٹم سے واقف نہیں ہیں چناں چہ انہوں نے یہ ایشو جہانگیر ترین کے حوالے کر دیا اور فیڈرل سیکرٹری فوڈ سے لے کر پنجاب‘ کے پی کے اور بلوچستان کا فوڈ ڈیپارٹمنٹ براہ راست جہانگیر ترین کے کنٹرول میں چلا گیا‘ میٹنگ تک وزیراعظم کے ایڈوائزر شہزاد ارباب بلاتے ہیں اور جہانگیر ترین ان کے دفتر میں صدارتی کرسی پر بیٹھ کر فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں اور سیکرٹری کو ہدایات جاری کر تے ہیں چناں چہ آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ کو جہانگیر ترین اس صورت حال کے مرکزی کردار ملیں گے۔
ہم اب آٹے کے موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں‘ حکومت نے مئی سے جولائی کے دوران گندم خرید کر ذخیرہ کرنی تھی‘ پاسکو نے وزراءاور افسروں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے 33 فیصد کم گندم خریدی‘ کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں نے سوچا پنجاب میں ہماری حکومت ہے‘ ہم پنجاب سے گندم لے لیں گے چناں چہ دونوں صوبوں کی حکومتوں نے گندم ذخیرہ نہیں کی‘ پنجاب اور وفاق نے بھی گندم کم خریدی‘ رہی سہی کسر فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے ناتجربہ کار افسروں نے پوری کر دی‘ یہ ملوں کو سرکاری نرخوں پر گندم دیتے رہے اور مل مالکان مارکیٹ میں مہنگی بیچتے رہے۔
گندم اور آٹا افغانستان بھی سمگل ہوتا رہا اور آخری تیر حکومت نے فروری 2019ءمیں پانچ لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کر کے چلا دیا‘ یہ فیصلہ کرتے وقت کسی بقراط نے نہیں سوچا ہمیں بھی تو گندم اور آٹا چاہیے‘ ہم کہاں سے لیں گے چناں چہ ملک میں بحران پیدا ہو گیا‘ آٹے کا ریٹ 40 روپے کلو ہے جب کہ یہ مارکیٹ میں 75 روپے کلو بک رہا ہے اور یہ پوری دنیا میں سب سے مہنگا ہے‘ وہ حکومت جس نے گیارہ ماہ پہلے پانچ لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کی تھی وہ اب تین لاکھ ٹن امپورٹ کر رہی ہے اور وہ بھی مہنگی اور اسے بھی آتے آتے دو تین ماہ لگ جائیں گے اور وہ جب آئے گی تو اس وقت ہماری اپنی فصل پک کر مارکیٹ میں آ چکی ہو گی۔
میری درخواست ہے اگر وزیراعظم کے پاس دس منٹ ہیں اور یہ واقعی سنجیدہ ہیں تو یہ اس ایشو کی انکوائری کرا لیں ‘ یہ حیران رہ جائیں گے‘ یہ بحران وزیراعظم کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں نے پیدا کیا اور یہ اس سے40ارب روپے کما گئے اور یہ لوگ اب چینی سے بھی 50 سے 80 ارب روپے کمائیں گے اور یہ ہے وہ ریاست مدینہ جس کے لیے جاگ جاگ کر ہم نے اپنی آنکھیں پتھر کر لی تھیں‘ آپ کو ایک بار پھر مبارک ہو‘ آپ آج گندم کے ہاتھوں لٹیں‘ کل چینی کے ہاتھوں اور پھر سبزیوں‘ دالوں اور گوشت کے ہاتھوں بھی لٹنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ وہ خواب تھا جسے ہم 20 سال پالتے رہے۔