60 سالہ شخص نےنوجوان کو جنسی تعلقات قائم نہ رکھنے پر تیزاب گردی کا نشانہ بنایا

0
420
acid burn victim in burewala

تحصیل بورے والا روز بروز روز گنجان آبادی کا شہر بنتا جارہا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جہاں پر مسائل بڑھے ہیں وہاں پر سوشل میڈیا نے عوامی کیمونکیشن گیپ کو تقریبا ختم کر کے رکھ دیا ہے اور مسائل کے ساتھ ساتھ کوئی بھی خبر ہو وہ آگ کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے منٹوں میں پھیل جاتی ہے.
پچھلے دنوں ایک ایسی دردناک خبر جس میں ایک ساٹھ سالہ بزرگ نے ایک انیس سالہ لڑکے کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا نے تحصیل بورے والا کی عوام کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ آج سے پہلے جتنے بھی تیزاب گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان واقعات میں زیادہ تر خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس انوکھے واقعے میں جہاں پر ایک بزرگ کی طرف سے نوجوان کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا وہاں پر یہ انہونی عوام کی سمجھ سے بالاتر نظر آرہی تھی اور ہر کوئی شش وپنج میں‌پڑھ گیا کہ اصل وہ کونسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے اس عمر رسیدہ بزرگ کو تیزاب کا استعمال کرنا پڑا.
عموما تیزاب کا استعمال وہ افراد کرتے ہیں جو کہ محبت میں ناکام ہوئے ہوں یا پھر خاندانی دشمنی وغیرہ لیکن اس تیزاب گردی واقع کے جوں جوں بھید کھلتے چلے گئے توں توں انسانیت بھی شرماتی چلی گئی.
اس تیزاب گردی کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ احمد علی ولد محمد منشاء قوم بھٹی سکنہ محلہ احاطہ شاہ نواز نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ دہم کلاس کا سٹوڈنٹ ہے اور ایک اکیڈمی میں پڑھتا ہے مورخہ 21.1.2020کے دن رات تقریبآ 7.30 بجے وہ اکیڈمی سے فارغ ہو کر اپنے گھر پہنچا تو میرا دوست محمد ریاض ولد نامعلوم سکنہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جو کہ فصیل آباد میڈیکل کالج میں بطور چوکیدار کام کرتا ہے نے گھر کی گھنٹی بجائی جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے میرا دوست چادر اوڑھ ے ہاتھ میں ایک بوتل لیے کھڑا تھا ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے بوتل میں موجود محلول کو میرے چہرے پر پھینک دیا جب محلول میرے چہرے پڑا تو اس کی جلن سے میں چلانے لگا اور میرا دوست وہاں سے بھاگ گیا بعد ازاں میرے گھر والوں اور میرے محلے داروں نے پولیس کو بلا کر محجھے ہسپتال پہنچایا جہاں پر محجھے پتا چلا کہ میرا دوست محمد ریا ض جس کی محجھ سے کسی بات پر ناراضگی ہوگئی تھی اس نے میرے چہرے پر تیزاب پھینک دیا ہے.
تیزاب گردی کے اس واقعے کے بعد پولیس بھی حرکت میں آگئی اور اس خبر کے سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیلنے کے بعد ڈی پی او وہاڑی اختر فاروق جوکہ ایک نیک دل اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں نے بھی اے ایس پی بورے والہ ڈاکٹر عزیز احمد کو فوری طور پر ان ایکشن آنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اس محمد ریاض نامی ملزم کو تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئےجلد از جلد پکڑ نے کے احکامات بھی جاری کردیے اور چونکہ یہ وقوعہ تھانہ پولس ماڈل ٹاؤن کا تھا تو یہاں پر تعینات بہادر اور ذہین آفیسر ایس ایچ او شمعون جوئیہ نے بھی فوری طور اپنے ڈی پی او اختر فاروق کے احکامات اور اے ایس پی بورے والہ ڈاکٹر عزیر احمد کی ہدایات کی روشنی میں سائنسی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے ملزم محمد ریاض کو اس وقت گرفتا کرلیا جب وہ فیصل آباد سے فرار ہونے کی بھرپور کوشش کررہا تھا.
محمد ریاض کو جب گرفتار کر کے تھانہ ماڈل ٹاؤن لایا گیا تو دیکھنے والے یہ دیکھ کر دنگ رہہ گئے کہ محمد ریاض ایک سفید داڑھی اور نوارنی چہرے والا ایک ساٹھ سالہ بال بچے دار بزرگ ہے لیکن جب تھانہ ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او محمد شمعون جوئیہ کی موجودگی میں راقم الحروف کے سامنے اس درندے نما انسان نے اپنی اس تیزاب گردی کی ساری شیطانی اور حیوانی کہانی سنائی تو وہاں پر موجود ہر شخص اپنے آپ سے بھی شرمندہ ہو کر ایک دوسرے سے نظریں چرا نے لگا.
بزرگ کے بھیس میں یہ شیطان نما انسان اپنی ساری شیطانی اور حیوانی کرتوتیں ایسے بیان کررہا تھا جیسے یہ حیوانی فعل اس کے لیے نیا نہ ہو محمد ریاض نامی بزرگ نے نوجوان لڑکے احمد علی ولد محمد منشاء سکنہ بورے والہ کے ساتھ پہلے اپنی دوستی اور بعد ازاں اس کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کی ساری کہانی سے پردہ اٹھاتے ہوئے بیان کیا کہ وہ ایک آرمی سے ریٹائر ملازم ہے اور اپنی گزر بسر کے لیے میڈیکل کالج میں چوکیداری کررہاتھا اور چھٹی کے دن اپنے آبائی گھر آتاجاتا تھا ایک دن جب وہ اپنے گھر واقع ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے کے لیے فیصل آباد لاری اڈا سے سوار ہوا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان آکر بیٹھ گیا اس نوجوان نے حال احوال جاننے کے بعد اپنا نام احمد علی سکنہ بورے والہ بتا یا اور باتوں باتوں میں ہماری دوستی ہوگئی لیکن بس کے لاری اڈا سے روانہ ہوتے ہی اچانک ہی احمد علی نے میرے ساتھ نازیبا حرکات شروع کردی جب وہ حد سے بڑھنے لگا تو میں نے اس کو روکا لیکن وہ باز نہ آیا تو میں نے بھی اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا کیونکہ مجھے بھی مزا آنا شروع ہوگیا تھا بس میں ہی میں نے احمد علی کو ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے پر راضی کرلیا احمد علی میرے ساتھ میرے گھر آگیا اور رات ہوتے ہیں احمد علی کے کہنے پر میں نے اس کے ساتھ غیر فطری جنسی کھیل کھلنا شروع کر دیا اور یوں فیصل آباد لاری اڈا سے شروع ہونے والی دوستی اس غیری فطری جنسی اور جنسی تعلقات کا شاخسانہ بن گئ اور متواتر ایک سال تک میں احمد علی کے ساتھ کبھی بورے والہ اور کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کئی کئی راتیں غیر فطری جنسی کھیل کھیلتا رہا اور احمد علی چونکہ اس غیر فطری جنسی کھیل کا عادی تھا تو ہم دونوں ہی اس کو بھر پور طریقے سے انجوائے کر رہے تھے اور دنیا کی نظر میں ہم ایک دوسرے کے دوست اور منہ بولا باپ بیٹا تھے لیکن اندر کی حیوانیت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ہماری شامیں رنگین اور راتیں مست ہوتی جارہی تھیں اور میرے پاس جتنی جمع پونجی تھی میں وہ بھی احمد علی پر نچھاور کر رہا تھا کہ اچانک احمد علی نے مجھ سے رابطہ رکھنا چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ جنسی تعلقات بھی ختم کرنا شروع کردیے جب میں نے تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ احمد علی کا ایک اور دوست بھی تھا جس سے احمد علی کی کسی بات پر ناراضگی ہوگئی تھی لیکن اب ان کی آپس میں صلح ہو گئی ہے اسی لیے احمد علی نے مجھ سے کنارہ کشی شروع کر دی ہے میں نے جب اس کی بابت احمد علی سے پوچھا تو اس نے مجھ سے مکمل طور پر ہی روابط ختم کرلیے اسی بنا پر میں نے پلاننگ کے تحت اپنے ساتھ جنسی تعلقات اور دوستی تک ختم کرنے اور کسی اور کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کو سامنے رکھتے احمد علی پر تیزاب پھینکنے کا پلان بنایا تاکہ اس کو غیر فطری جنسی کھیل ختم کرنے کا مزا چکھا یا جائے بعد ازاں اس سارے تیزاب گردی کے ڈرامے کو میں نے عملی جامعہ بھی پہنا دیا.
جب محمد ریاض نے اس ساری حیوانی اور شیطانی کہانی کو اختتام پذیر کیا تو اس ساری کہانی کو سن کر انسانی روح تک شرما گئی حالانکہ حکم ہے کہ تمہیں کسی آدمی کے ساتھ اُس طرح جنسی تعلقات نہیں کرنا چا ہئے جیسا کسی عورت کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ یہ بھیانک گنا ہ ہےلیکن اس انسان نما شیطان نے تمام شرعی حدیں کراس کرتے ہوئے اپنے بڑھاپے کا بھی خیال نہ کیا اس عمر میں مسلمان اپنی آخرت کی فکر میں آدھا رہہ جاتا ہے لیکن محمد ریاض پر شاید جوانی ہی اب آئی تھی یا پھر شیطان کے ہاتھوں بہک کر اس بے راہ روی کی ساری حدیں پھلانگ کر اللہ پاک کے حکم کی بھی نافرمانی کرتے ہوئے قوم لوط کے دھتکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر اللہ پاک کے عذاب کا حق دار ٹھہرا.
بہرحال تھانہ ماڈل ٹاؤن پولیس نے اس تیزاب گردی اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997.7ت پ324 کے تحت مقدمات درج کر کے مجرم کو عدالت کے سپرد کر دیا ہے اور احمد علی بھی ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہے اور ڈاکٹر اس کی تیزاب سے متاثرہ آنکھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس ساری کہانی میں ہمارے معاشرے کو ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ہمیں پہلے تو اپنے بچوں پر پھرپور نظر رکھنی چاہیے اور دوسرا اس طرح کے شیطانی اور حیوانی ذہن رکھنے والے ڈوھنگی بابوں کے ساتھ نوجوان بچوں کی دوستی کو منع کرنا چاہیے اور ہر داڑھی والا چور بھی نہیں ہوتا بلکہ چور اور شیطانی کام کرنے والے داڑھی رکھ لیتے ہیں اور اب ہم نام کے مسلمان جب صحیح دین اسلام پر زندگی گزاریں گئے تو پھر ہی ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گئیں
مہر اعجاز احمد بورے والا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here