سوشل میڈیا کا خطرناک جال

سوشل میڈیا ، یہ کیسا لفظ ہے جسے پوری دنیا میں ہر کوئی جانتا ہے، چھوٹے بچے سے لے کر 80 سال کے بوڑھے تک اس سوشل میڈیا کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جس کے ذریعہ سے بہت سی دبی ہوئی آوازوں کو بلند کیا جاتا رہا ہے۔
ہماری آج کل کی زندگی میں اس سوشل میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بغیر ہم کسی بھی چیز ،کسی بھی شعبے کے متعلق آگاہی حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ اس لیے سوشل میڈیاآجکل ہماری بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ سوشل میڈیا دنیا میں ہر جگہ ہر کونے میں پھیلا ہوا ایک ایسا جال ہے جس میں دنیا کے ہر کونے سے ہر طرح کا انسان قید ہے۔ اس جال کے اندر پوری دنیا ایسے قید ہے جیسے ایک پنجرے میں ہر نسل اور رنگ کے پرندے قید ہوں۔
اس جال میں قید ہونے کے بعد ہر انسان بہت سی برائیوں کا شکار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ دوسرا کوئی کس کونے سے ہم سے بات کر رہا ہے یا ہمیں فالو کر رہا ہے۔ اس لئے ہم بناجانے کسی سے بھی باتیں کرنے لگتے ہیں، جس سے ہوتا یہ ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ خاص علم نہیں ہوتا اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے جیسے مرضی انسان سے باتیں کرتے ہوئے بہت کچھ اپنے بارے میں شیری کر دیتے ہیں، اس ڈر کے بغیر کہ سامنے والا انسان کوئی اچھا انسان ہی ہے کہ حقیقت کی زندگی میں کوئی جرائم پیشہ انسان ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس میڈیا کی وجہ سے بہت سی زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں اور کچھ تباہ ہونے والی ہیں۔ آنے والا وقت کیا رنگ دکھائے گا بس یہی سوچ کر میں ڈرگئی ہوں۔ اس لئے آج سوشل میڈیا پر بات کر رہی ہوں۔ اس کو ہم سب جانتے ہیں لیکن اس کے اندر اور پیچھے کون کون سی برائیاں اور نقصانات ہیں شاید وہ ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
سوشل میڈیا پر کسی سے بات چیت کرنا نارمل بات ہے مگر بعض لوگ اس بات چیت کو عشق اور محبت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ پہلے بات دوستی سے شروع کر کے لڑکی کو بڑے خوبصورت اور رومانی انداز میں پیار کے جال میں پھساہ لیا جاتا ہے، پھر نمبرز کی تبدیلی ہوجاتی ہے اور بات فون کالز تک جا پہنچتی ہے ۔ شروع میں شاید لڑکا لڑکی اس بات کو غلط نہیں سمجھتے مگر اس پیار کے کھیل میں بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ اعتبار کے نام پر لڑکے لڑکیوں سے پہلے تصاویر مانگتے ہیں کہ جانو میرا دل نہیں لگتا پلیز تصویر سینڈ کرو، تمہارے بغیر جی نہیں سکتا، پلیز میرا اعتبار کرو ۔ یہ کچھ ایسے الفاظ ہیں جس سے معصوم لڑکی اعتبار کر لیتی ہے اور اسے اپنے جیون ساتھی کی طرح سمجھنے لگتی ہے، اور پھر بات اعتبار اعتبار کے نام پر لڑکیوں سے برہنہ تصویریں اور ویڈیوز مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ لڑکیاں شروع میں تو انکار کرتی ہیں لیکن وہ محبت کے اس جال میں پھنس چکی ہوتی ہیں اور اندھے اعتبارمیں وہ لڑکے کو سچا اور اپنا عاشق سمجھتے ہوئے اپنی نازیبا تصویریں بھیج دیتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا، اندھا اعتبار اور حسین جال انسان کی عقل کو لے ڈوبتا ہے۔ بس اسی وقت اور موقع کا انتظار ہوتا ہے لڑکے کو جیسے ہی یہ سب اس کے ہاتھ آجاتا ہے تو وہ لڑکی کو ملنے پر مجبور کرنے لگتا ہے کہ مجھے ملو۔ کچھ تو بلیک میلنگ کے ذریعے ملنے بلایا جاتا ہے اور کچھ کو پیار کے نام پر کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں کہ ایک بار آمنے سامنے ملاقات ہونی چاہیے۔ اس ایک بار کی ملاقات میں لڑکیوں کی عزت تباہ ہوجاتی ہے، خالی یہی ہی نہیں کہ عزت تباہ ہوئی بلکہ وہ ان لڑکیوں کو ان ملاقاتوں کی تصاویرسے بلیک میل کرکے پیسے بھی کماتے ہیں اور جب تک ان کا دل چاہے لڑکی کو اپنے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں اور ملاقاتوں کے یہ سلسلے شاید لڑکی کے مرنے تک چلتے ہیں یہ ایسا قرض ہوتا ہے جسے لڑکی ساری عمر چکاتی رہتی ہے، کبھی اپنا جسم دے کر اور کبھی پیسے دے کر تاکہ اس کے گھر والوں کو پتہ نا چلے اور اس کے خاندان کی بدنامی نہ ہو۔
ہمارے ہاں آج کل دس سال کے بچے بچیاں سبھی یہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آخر یہ ہے کیا۔ صرف ماڈرن بننے کے چکر میں ماں باپ بھی اس طرف دھیان نہیں دیتے۔ شاید جانتے ہی نہیں کہ اس جال میں آپ کے معصوم بچے بچیوں کو پکڑنے اور ان کی زندگی برباد کرنے کیلئے بہت سے جرائم پیشہ لوگ اس نیٹ ورک پر موجود ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ لڑکیاں بہت معصوم ہوتی ہیں کہ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، بات یہ نہیں ہے، عورت بہت کچھ جانتی اور سمجھتی ہے مگر جہاں پیار اور محبت کی بات آتی ہے وہاں عورت کی عقل ہی بند ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی عورت پیار میں اندھا اعتبار کر لیتی ہے، تبھی دھوکا کھا جاتی ہے۔ بات صرف لڑکیوں کی نہیں، آجکل تو اس سوشل میڈیا کے جال میں لڑکوں کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر لڑکے کی دوستی ہوئی اور گروپ بنالیا گیا۔ کافی عرصہ بات چیت ہوتی رہی پھر ان سب نے کہا کیوں نہ ہم حقیقت میں دوست بن جائیں، کہیں باہر ملتے ہیں جس پر وہ پندرہ سال کا بچہ ملنے کے لئے چلا گیا جس کے ساتھ مسلسل تین دن اجتماعی زیادتی کی گئی اور اس کے بعد اسے قتل کرکے نہر میں پھینک دیا گیا۔ بہت عرصے بعد جب اس کی لاش ملی اور اس واقعہ کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا سوشل میڈیا کا جال ایک اور معصوم کی جان اور عزت کھا گیا۔ اس بات کا ذمہ دار کون ہے، کہاں ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ سوشل میڈیا وہ جانور ہے جس کا پیٹ کبھی بھر نہیں سکتا کیونکہ اس کے جال میں ہر رنگ ہر نسل کا پرندہ موجود ہے۔
گھر رہنے کے باوجود ہمارے بچے بچیاں محفوظ نہیں ہیں ۔ترقی کی دوڑ میں شامل تو ہوگئے ہیں ہم مگر اس میں آئے دن لڑکیوں سے زیادتیاں اور بلیک میلنگ کے ذریعے پیسے حاصل کیے جاتے ہیں۔ پیسے نہ ملنے پر جن میں ہزاروں لڑکیوں کی ویڈیوز اسی سوشل میڈیا پر وائرل کردی جاتی ہیں جسے دیکھ کر ہزاروں لڑکیاں خودکشی کا چکی ہیں اور نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں ابھی بھی بلیک میلنگ کا شکار ہیں جو اس ڈر سے نہ تو کسی ادارے کے پاس جاتی ہیں کہ اس کی مدد کی جائے اور نہ ہی اپنے ماں باپ کو اس بلیک میلنگ کا بتا سکتی ہیں کہ انکے ماں باپ پر کیا گزرے گی۔

Ayesha Tehseen: عائشہ تحسین معروف صحافی اور کالم نگار ہیں جن کے کالمز مختلف اخبارات اور رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ عائشہ تحسین کالم نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی ذوق رکھتی ہیں۔