اخلاقیات – عائشہ تحسین

ہم آجکل جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں کے کچھ عجیب اصول ہیں. یوں تو ہم خود کو ترقی پسند قوم کہتے ہیں اوربین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن اس دوڑ میں ہم اپنی اسلامی تہذیب کو بہت پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں. ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ ہمارے فرائض کیا ہیں، معاشرتی طور پر ہم اخلاقیات کو بھول کر خود غرضی کو اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں جو بداخلاق اور خود غرض ہے ہم اسے کامیاب و ترقی پسند تصور کرتے ہیں اور یہ اس لیے ہورہا ہے کیونکہ ہم اپنی تہذیب کو بھول کر ماڈرن ممالک کی تہذیب کو اپنا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے معاشرتی اور اخلاقیاتی اصولوں کو چھوڑ کر بے ہنگم معاشرے کا حصہ بن رہے ہیں جہاں اخلاقیات کے اصول پر عمل ہی نہیں کیا جاتا.
ہم مسلمان ہیں اور اچھا اخلاق ہمارے لیے بہت ضروری ہے. اس سے معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے اور ایک دوسرے کے لیے ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے. ہم اکیسویں صدی میں شامل ہوکر اپنے بڑوں کا احترام کرنا بھول گئے ہیں ہم سمجھنے لگے ہیں رشتے صرف سٹیٹس لگانے کے لیے ہی رہ گئے ہیں. مدر ڈے پرماؤں کے نام کا سٹیٹس لگا دینا، فادر ڈے پر باپ کے نام پیغام لکھ دینے سے رشتوں کا حق ادا نہیں ہوتا. اپنے پیاروں کو وقت دیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی سنیں اور ان سے سیکھیں کہ زندگی مصنوعی چیزوں سے نہیں گزارتی اس کے لئے دل میں جگہ بنانی پڑتی ہے، اپنے رویے سے دوسروں کو بتانا پڑتا ہے کہ آپ کس سوچ کے مالک ہیں.
ہمارے مذہب میں اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے، آپ کسی سے مسکرا کر بات کر لیں وہ شخص آپ کی وجہ سے خوش ہوگا اور اس کے دل میں آپ کے لیے اچھی سوچ پیدا ہوگی. زندگی بہت چھوٹی ہے اور غلطیاں یہاں سب سے ہو جایا کرتی ہیں کیونکہ ہم انسان ہیں اور انسان غلطی کا پتلا ہے ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں معاف کرنے سے اللہ تعالی بھی خوش ہوتے ہیں اور غلطی ہو جانے پر معافی مانگ لینے سے انسان چھوٹا نہیں ہوجاتا ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں جو غلطی کرکے اس پر ڈٹ جائیں اس لیے معافی مانگ لینے سے زندگی میں بہت سے خوبصورت رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں.
ہم سب اکیلے زندگی نہیں گزار سکتےہمیں اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اس لیے اپنے معاشرے کو بہتر کرنے کے لیے اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت پرخاص توجہ دیں کیونکہ جب ایک بچہ گھر سے باہر جاتا ہے تو لوگ اس کی شکل و صورت سے نہیں اس کی اخلاقی تربیت سے اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کس خاندان سے ہے. ویسے بھی آپ نے ایک مثال تو سنی ہوگی جو بہت ہی مشہور ہے کہ میٹھی زبان والے کی مرچیں بھی بک جاتی ہیں اور کڑوی زبان والے کا شہد بھی نہیں بکتا اس لیے معاشرتی بنیادوں پر اچھے اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے.
ہمارے آج کل کے بچوں میں بڑوں کا احترام کی بہت ہی کمی ہے جو کہ غلط بات ہے احترام کی کمی کے باعث آپ بچے کو اچھے اور برے کاموں سے بھی منع نہیں کر سکتے اس لیے اپنے بچوں میں بڑوں کا احترام کرنے کی عادت ڈالیں اپنی زندگی سے منفی باتوں کو ختم کرنے کے لئے آپ دوسروں سے ہمدردی کا رویہ رکھیں، خوش اخلاقی سے پیش آئیں، اپنائیت سے آپ دوسروں کے دل میں جگہ بھی بنا سکتے ہیں اور اپنی ذات کو ڈپریشن جیسی بیماری سے بھی بچا سکتے ہیں. اچھے اخلاق والے انسان کو سب یاد رکھتے ہیں اور برے اخلاق والی انسان کو کوئی بلانا بھی پسند نہیں کرتا ویسے بھی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
عمدہ اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے اور برے اخلاق انسان کے اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتے ہیں جس طرح سرکہ شہد کو بگاڑ دیتا ہے ۔طبرانی
ایسی بہت سی احادیث ہیں جن میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اخلاقیات کی اہمیت کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود بہترین اخلاق کی عمدہ مثال ہیں آپ کے در سے کبھی کوئی خالی نہیں جاتا تھا، پورے عرب میں لوگ آپ کےعمدہ اخلاق کی مثالیں دیا کرتے تھے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ فرمایا
تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں
ہمیں ان تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے معاشرے کے لیے اچھے شہری ثابت ہوسکیں. اسلامی بنیاد پراخلاق کی بہت سی صورتیں ہیں. ہماری پوری زندگی اچھے اور برے اخلاق کی بنیاد پر گزرتی ہے مثلا غصے کو ہی لیں، یہ ایک انسانی فطرت ہے اس کو شریعت کے مطابق کرنا ہے، مثلا ایک آدمی پر دوسرا شخص ناجائز حملہ کر رہا ہواور وہ خاموش بیٹھا رہے اپنا دفاع نہ کرے اسے غصہ نہیں آرہا تو یہ بغیرتی ہے اسلام میں اس کی گنجائش نہیں یہ بھی بداخلاقی ہے کیوں کہ غصہ اس لیے دیا گیا تاکہ اپنے دین کا، جان کا، مال کا دفاع کرے اور یہ غصے کو استعمال نہیں کر رہا اس لیے ہمیں اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے آج کل لوگ غیر مسلم اقوام کے کسی ایک ظاہری عمل سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کے جناب وہ تو بڑے اخلاق والے لوگ ہیں ہمارے ہاں شریعت کی اتباع ضروری ہے اسی طرح صرف مسکرا کر کسی سے مل لینے سے ہماری اخلاقی ذمہ داریاں پوری نہیں ہوتی دل میں جو جذبات خواہشات پیدا ہوتی ہیں اگر وہ عین شریعت کے مطابق ہیں تو یہ اچھے اخلاق کی علامت ہے اور اگر وہ شریعت کے مطابق نہیں یہ آدمی کی بد اخلاقی کہلائے گی اس لیے ہمیں شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے اخلاق کو بہتر کرنا ہے تاکہ ہم اپنے معاشرے اور آنے والی نسلوں کو بہت سی برائیوں سے بچا سکے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنے طور پر خود کو اور اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کو اخلاقی تعلیمات دیں.
ہربرائی کو اخلاقی بنیادوں پر ختم کیا جاسکتا ہےاگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو معاشرے سے چوری ڈکیتی جیسی برائی خود ہی ختم ہو جائیں گی اس لیے کوشش کریں اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر کریں تاکہ ہم فخر سے کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اخلاقی لحاظ سے سب سے بہترین قوم ہیں

Ayesha Tehseen: عائشہ تحسین معروف صحافی اور کالم نگار ہیں جن کے کالمز مختلف اخبارات اور رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ عائشہ تحسین کالم نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی ذوق رکھتی ہیں۔