جموں(ساوتھ ایشین وائر)
حال ہی میں خبروں کی زینت بنی وادی کشمیر کی جوان سال فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کا نام اب دنیا بھر میں سچائی کی جنگ لڑرہے ان صحافیوں میں شمار کیا گیا ہے جنہیں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے وقت ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق عالمی میڈیا واچ ڈاگ ‘ون فری پریس کولیشن’ نے رواں مہینے دنیا بھر میں سچ کی لڑائی لڑنیوالے صحافیوں کی ایک فہرست جاری کی جس میں مسرت کو آٹھواں مقام دیا گیا ہے۔
عالمی میڈیا واچ ڈاگ’ون فری پریس کولیشن’ ہر مہینے اپنی فہرست جاری کرتی ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا بھر میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی طرف عالمی توجہ دلانے کی کوشش کرتی ہے۔ ٹائم میگزین، الجزیرہ، رائٹرز اور دی واشنگٹن پوسٹ جیسے ادارے اس کولیشن کے ممبران ہیں۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس فہرست میں مسرت کے علاوہ سعودی عرب کے جمال خاشقجی، عظیمجون اسکرو، عبدالخالق عمران، اکرم الولیدی، نوف عبدالعزیز، عرفین حالیسوا جیسے نام شامل ہیں۔
کولیشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ہر مہینے جاری کی جارہی فرصت میں کچھ نئے نام ہوتے ہیں اور کچھ پرانے۔
مسرت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وادی کی فری لانس فوٹو جرنلسٹ پر یو اے پی اے عاید کیا گیا ہے جس کے تحت ان کو سات سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ قانون عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے بنا تھا تاہم اس کا استعمال اب صحافیوں پر بھی کیا جارہا ہے۔
مسرت زہرا نے ساوتھ ایشین وائر کو بتایا کہ مجھے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ایک فوٹو شیئر کرنے کی وجہ سے ہراساں کیا گیا۔ مجھ پر یو اے پی ایل کے تحت معاملات درج کیا گیا۔ کشمیر میں صحافی کافی مشکلات میں اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنا کام انجام دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ عالمی سطح پر کوئی ہمارے لئے آواز بلند کر رہا ہے۔القمرآن لائن کے مطابق رواں سال 18 اپریل کو مسرت پر یو اے پی اے کے سیکشن 13 اور انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 505 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ مسرت نے گزشتہ برس دسمبر میں کی گئی ایک اسٹوری کی تصویر فیس بک پر شائع کی تھی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ ایک عورت کا شوہر 2000 میں مبینہ طور پر بھارتی فوج کی جانب سے ہلاک کیا گیا تھا۔
زہرا نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ دو دہائی بعد بھی یہ عورت اپنے شوہر کو یاد کر کے ذہنی دبا وکا شکار ہوجاتی ہے۔