ارطغرل ڈرامہ سیریز میں حضرت محی الدین ابن عربی کا کردار انتہائی مضبوط ہے‘ اسلام نے آج تک دو عظیم مفکرین پیدا کیے ہیں‘ مولانا روم اور ابن عربی‘ ہم جب تک ان دونوں کو نہ سمجھ لیں ہم اسلام کو مکمل طور پر انڈرسٹینڈ نہیں کر سکتے‘ مولانا روم کو خوش قسمتی سے ترکوں نے ”اون“ کر لیا لہٰذا یہ پوری دنیا میں متعارف ہو گئے جب کہ ابن عربی فکری تعصب کا شکار ہو گئے لہٰذا یہ اتنے مشہور نہ ہو سکے جتنی عظمت اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت کی تھی۔
یہ مخفی علوم کے دنیا کے سب سے بڑے ماہر تھے‘ یہ روحوں کو بھی بلا لیتے تھے اور لوگوں کی شکل دیکھ کر کر ان کے آباؤ اجداد اور آنے والی نسلوں تک
کے بارے میں بتا دیتے تھے‘ یہ واحد اسلامی مفکر ہیں جنہوں نے قرآن مجید کے حروف مقطعات کو ڈی کوڈ کیا‘ ان کا فرمانا تھا یہ 14 حروف کرہ ارض پر اترنے والے تمام انسانوں کا ڈیٹا ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا آغاز ا‘ ل‘م سے کیا لہٰذا یہ تینوں حرف (آوازیں) جس شخص کے نام میں اکٹھے ہو جاتے ہیں وہ دنیا میں کسی حیران کن چیز کی بنیاد رکھتا ہے‘ یہ فرماتے تھے قدرت کسی انسان کی آنکھ کا سائز نہیں بدلتی لہٰذا یہ کسی بھی بچے کی پیدائش کے بعد اس کی آنکھیں دیکھ کر بتا دیتے تھے یہ بچہ کون ہے اور یہ کہاں تک جائے گا‘ ابن عربی جیسا عظیم انسان اور ان کا عظیم روحانی ورثہ ہزار سال سے کتابوں میں مقفل تھا‘ ہمیں بہرحال ترکی اور ارطغرل ڈرامہ کی ٹیم کو یہ کریڈٹ دینا ہوگا اس نے ابن عربی کو نئی نسل سے متعارف کرا دیا۔میں نے ارطغرل دیکھنے کے ساتھ ساتھ ابن عربی کو بھی دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا‘ پڑھتے پڑھتے استاد کا ایک دعویٰ سامنے آیا‘ استاد نے فرمایا تھا دنیا میں جب بھی کوئی مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو تو قرآن مجید سے رابطہ کریں‘ نسخہ مل جائے گا اور جب یہ سمجھ نہ آ رہی ہو یہ نسخہ استعمال کیسے کرنا ہے تو پھر سنت اور احادیث سے رابطہ کریں یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
ملک میں اس وقت کرونا کا زور تھا لہٰذا میں نے استاد کا دعویٰ پرکھنے کے لیے قرآن مجید اور احادیث میں کرونا کا علاج تلاش کرنا شروع کر دیا‘ قرآن مجید سے پتا چلا دنیا کی ہر مصیبت اللہ کی طرف سے آتی ہے اور وہی ذات یہ مصیبت ٹالتی ہے جب کہ مسند احمد میں وباؤں سے متعلق تین احادیث سامنے آ گئیں‘ یہ تینوں احادیث ان دنوں مختلف حلقوں میں زیر بحث تھیں‘ ماہرین فلکیات اور چند آسٹرولوجسٹ ان کو کرونا سے منسلک کر رہے ہیں‘ان کا خیال تھا نبی رسالتؐ نے چودہ سو سال پہلے فرما دیا تھا دنیا میں جب بھی کوئی وباآئے گی تو یہ موسم بہار کے آخر میں اس وقت ختم ہو جائے گی جب زمین میں بیج بونے کا وقت آئے گا۔
ان احادیث کا تعلق پیور آسٹرونومی یعنی علم فلکیات سے تھا لہٰذا میں نے پہلے احادیث پڑھیں اور پھر آسٹرونومی کا مطالعہ کیاتو مجھے پتا چلا کرونا کا زور 18 مئی کے بعد ٹوٹ جائے گا اور جون میں اس کا کوئی ٹھوس حل سامنے آجائے گا یا پھر یہ وبا دن بدن کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گی‘یہ کیسے ہوگا؟ میں یہ عرض کروں گا لیکن آپ پہلے وہ احادیث ملاحظہ کیجیے اور پھر میں ان احادیث میں چھپے ہوئے آسٹرونومی کے چند حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن اس طرف جانے سے پہلے میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں آسٹرولوجی یعنی علم نجوم کی بات نہیں کر رہا۔
اسلام علم نجوم کو نہیں مانتا‘ ان احادیث کا تعلق آسٹرونومی یعنی فلکیات سے ہے اور اسلام نہ صرف علم فلکیات کو مانتا ہے بلکہ یہ علم ہمارے مذہب کا حصہ بھی ہے‘ ہم نمازوں کے اوقات بھی علم فلکیات سے طے کرتے ہیں‘ ہمارے مہینے بھی قمری ہیں اور قرآن مجید نے بار بار فلکیات سورج‘ چاند اور ستاروں کا ذکر بھی فرمایا۔ہم بہرحال احادیث کی طرف آتے ہیں‘ پہلی حدیث مسند احمد کی ہے‘حضرت عثمان بن عبداللہ بن سراقہ سے روایت ہے ”میں نے عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پھلوں کی فروخت کے بارے میں سوال کیا‘ آپؓ نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آفت کا ڈر ختم ہونے تک پھلوں کی فروخت سے منع کیا تھا‘ میں نے کہا اور یہ کب ہوتا ہے یعنی آفت کب ختم ہوتی ہے تو انہوں نے جواب دیا جب ثریا ستارہ ظاہر ہوتا ہے۔
دوسری حدیث بھی مسند احمد کی ہے‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب صبح کے وقت ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے اور اس وقت جو قوم جس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ بیماری یا تو سرے سے ختم ہو جاتی ہے یا اس میں کمی آ جاتی ہے اور تیسری حدیث بھی مسند احمد کی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ جب ثریا ستارہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے تو آفت ختم کر دی جاتی ہے۔آپ نے یہ تینوں احادیث ملاحظہ کیں تاہم ہمیں ماننا ہوگا علماء کرام ان کی تشریح پر تقسیم ہیں۔
ایک گروپ کا خیال ہے یہ احادیث پھلوں کی وبا کی نشان دہی کرتی ہیں جب کہ دوسرے گروپ کا کہنا ہے ان کا مطلب ہر قسم کی وبا ہے‘یہ بحث ہزار سال سے جاری ہے‘ ہم بہرحال اس بحث میں نہیں پڑتے اور ثریا ستارہ کی طرف آتے ہیں‘انگریزی میں ثریا کو پلے ڈیز کہا جاتا ہے‘ یہ ستاروں کا کلسٹر یعنی جھرمٹ ہے‘ یہ کلسٹر سیون سسٹرز بھی کہلاتا ہے اور ایم 45 بھی‘ آپ اگر مئی کے بعد آسمان پر شمال کی طرف دیکھیں تو آپ کو ستاروں کے اندر سات ستاروں کا جھرمٹ چھپاہوا نظر آئے گا۔
یہ ستارے عموماً دھند میں لپٹے ہوتے ہیں اور ٹورس یعنی برج ثور کے اوپر ہوتے ہیں‘ عرب اسے پروین یا خوشہ پروین بھی کہتے تھے‘ یہ ستارے حجاز یا عرب علاقوں میں بہار کے آخر میں نظر آتے تھے‘ یہ کلسٹر ظہور اسلام سے پہلے جوں ہی نظر آتا تھا عرب زمینوں میں بیج بونا اور پھل توڑنا شروع کر دیتے تھے‘ عرب تاجر بھی ثریا یعنی پلے ڈیز دیکھنے کے بعد پھلوں کی تجارت شروع کردیتے تھے‘ سمندروں میں سفر کرنے والے بھی سردیوں کے بعد جب تک پلے ڈیز نہیں دیکھ لیتے تھے یہ شمال کی طرف سفرنہیں کرتے تھے۔
میکسیکو میں آج بھی روایت ہے یہ لوگ پلے ڈیز دیکھنے کے بعد کاشت کاری شروع کرتے ہیں لہٰذا یہ ثریایا پلیڈیزکو سیڈ سٹارز(کاشت کاری کا ستارہ) بھی کہتے ہیں‘ آپ اگر سات ستاروں کے اس جھرمٹ یا کلسٹر کو دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ عرب‘یورپ‘ امریکا اور لاطینی امریکا میں مئی کے آخر میں رات کے وقت اپنی چھت پر کھڑے ہو جائیں اور آسمان کی طرف دیکھیں‘ آپ گوگل پر جا کر بھی اس کے سارے اینگل دیکھ سکتے ہیں گویا نبی رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا آسمان پر جب ستاروں کا یہ کلسٹر دکھائی دینے لگتا ہے تو زمین پر پھیلی وباؤں کا خاتمہ شروع ہو جاتا ہے لیکن میں ایک بار پھر عرض کر دوں پلے ڈیز کا تعلق علم نجوم سے نہیں ہے‘یہ علم فلکیات سے تغلق رکھتا ہے۔
اسے صرف آسٹرونومسٹ مانتے ہیں اور ستاروں کا یہ کلسٹر صرف موسم کی تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے جیسے چاند‘سورج اور قطب شمالی کرتا ہے اور بس۔اب سوال یہ ہے موجودہ حالات میں پلے ڈیز کب نظر آتا ہے‘ علم فلکیات کے مطابق یہ مختلف برسوں میں مختلف دنوں میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً یہ 2020ء میں 18مئی کو نظر آنا شروع ہوگیا‘ یہ عرب‘ یورپ اور سنٹرل ایشیا میں 20 مئی کو نظر آیا لہٰذا ہم اگر احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو کرونا کا زور 18مئی کے بعد ٹوٹنا شروع ہو گیا اور جوں جوں پلے ڈیز جون میں واضح ہوتا جائے گا وبا بھی ختم ہوتی چلی جائے گی تاہم ثریاستارہ لاطینی امریکا اور پیسفک اوشن کے ملکوں میں نومبر میں دکھائی دیتا ہے لہٰذا شاید وہاں کرونا نومبر میں ختم ہو۔
یہاں پر ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان احادیث اورپلے ڈیز کو سائنسی لحاظ سے ثابت کر سکتے ہیں؟جی ہاں!ہم کر سکتے ہیں‘ کیسے؟ پہلی بات علم فلکیات خالص سائنس ہے اور پلے ڈیز یاثریا ستارہ اس سائنس کا حصہ ہے‘ پلے ڈیز یونانی لفظ ہے‘ یہ یونانیوں سے شرع ہوا تھا اور رومن تک نے اس کے اثرات کو تسلیم کیا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ اس کا تعلق زمین اور موسم کے ساتھ ہے‘ ستاروں کا یہ کلسٹر جوں ہی دکھائی دیتا ہے زمین کا اندرونی اور بیرونی دونوں درجہ حرارت بڑھ جاتے ہیں اور یوں زمین کے وائرس‘ بیکٹیریاز اور جراثیم مرنے لگتے ہیں اور یہ کھیتی باڑی کے قابل ہو جاتی ہے اور یوں شاید سردیوں میں جنم لینے والی وبائیں دم توڑنے لگتی ہیں۔
آپ سٹڈی کر کے دیکھ لیں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ ماضی کی دونوں وبائیں طاعون اور سپینش فلو بھی مئی اور جون میں ختم ہونا شروع ہوئی تھیں اور یہ پلے ڈیز کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ دنیا سے غائب ہوگئی تھیں لہٰذاآپ ہمارے رسولؐ کی دانش ملاحظہ فرمائیے‘دنیا میں 2020ء میں 18مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوا اور اس کے ساتھ ہی 213 ملکوں میں کرونا کا زور ٹوٹ گیا‘ دنیا 18مئی کے بعد کھلنا شروع ہو گئی اور یہ ان شاء اللہ جون میں بڑی حد تک کھل جائے گی۔
صرف پاکستان اور بھارت میں کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی ذمہ دار قدرت نہیں ہم ہیں‘ ہم نے دوڑ کر جاتی ہوئی وبا کو گلے لگا لیا تھا چناں چہ دنیا کھل رہی ہے اور ہم بند ہو رہے ہیں‘ کاش ہم آج بھی سمجھ جائیں‘ ہم پندرہ دن کا مکمل لاک ڈاؤن کریں‘ مریضوں کو الگ کریں اور باقی ملک کھول دیں یوں ہم بھی ثریا ستارہ کی برکت میں شامل ہو جائیں گے ورنہ پھر ہمیں نومبر تک ملک بند رکھنا پڑے گا اور نومبر کیوں؟ اس کا جواب ہزار سال پہلے ابن عربی نے دیا تھا‘ ان کا کہنا تھا‘ بہار کے بچھڑے سردیوں میں ملا کرتے ہیں۔