کیا ہم ان ممالک کی طرح نہیں بن سکتے ہیں جن کی اکثر ہم پاکستانی ترقی کی مثال دیتے ہیں ۔ ہم ان ممالک کی بات کرتے ہیں ۔جنہوں نے پاکستان کے بعد ازادی حاصل کی اور ترقی میں پاکستان سے اگے نکل گے۔ کچھ ممالک ترقی پزیر ہوکر بھی پاکستان سے اگے ہیں ۔تو کچھ اور ممالک ترقی پزیر سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں سرفہرست ہیں۔اور ہم ان ترقی پزیر اور یافتہ ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کے دن رات گن گا کر اپنا اور اپنے ملک سے ان کا موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ اور ملک کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔اور ٹھنڈی اہوں پر اہیں بھرتے ہیں۔اور کبھی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے۔
اخر ان ممالک نے کس طرح ترقی کی ہے۔اور ہم میں ایسی کون سی غلطیاں اور خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم ترقی نہیں کر پا رہے۔اور اپنے مسائل حل نہیں کر پار ہے۔اپ ہم موازنہ کرتے ہیں۔ان ممالک کا جہنوں نے اتنی تیزی سے ملک کو سنھالا ملک کی معشیت کو سنبھالا اور عوام کو خوشحالی کے راستے پر لاتے ہوۓ ملک کو ترقی کی سڑک پر گامزن کیا ۔
گو جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ ہوچکے ہیں ۔وہ بھی سو فیصد کبھی بھی نہیں ہے۔اور نہ کوئی سو فیصد ہو سکتا ہے۔مگر ان ترقی پزیر ممالک کا حال پاکستان کی نسبت بہتر ہے۔ اخر ان ممالک کے پاس ایسی کونسی جادو کی چھڑی تھی۔ وہ اۓ اور چھڑی گھمائی اور پلک جھپکتے سب ٹھیک ہوگیا ۔جس کا خواب انہوں دیکھا تھا اور جو وہ چاہتے تھے۔ اور ہاں جب وہ ملک ازاد ہوۓ تو ایک قوم بن گے۔ان کے سیاست دان،ان کے ادارے ان کا قانون ان کی عدلیہ ان کی فوج اور ان کے لوگ اپنے وطن کے ساتھ مخلص رہے۔ انہوں نے دن رات محنت کی ۔یہاں معاملہ الٹ ہے۔اللہ پاک نے بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان تو بنادیا۔مگر بدقسمتی پاکستان کی. پاکستان کے قائم ہوتے ہی سازشی ٹولہ بھی پاکستان کے ساتھ ساتھ رہا ۔وہ ٹولہ جو نہیں چاہتے تھے۔کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرے۔تو انہوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے۔سازشیں شروع کردی
موجودہ دور کے وہ لوگ جو 14اگست کو نہیں مناتے۔اور ماضی میں ان کے اباو اجداد جو بڑے ڈھیٹپ سے کہتے تھے۔شکر ہےہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔یہ وہ منافق لوگ ہیں جو عوام کو گمہراہ حکومتوں کو بلیک میل کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اور اقتدار کی پکی پکائی دیگ پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔دوسری بات شروع ہی سے پاکستان کے جمہوری عمل کو روکنے اور اس کو نقصان پہچانے کے لیے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کا قتل ۔یہاں پر سیاست براۓ سیاست نہیں چلتی یہاں پر سیاست براۓ انتقام کی روایات کو فروغ دیا گیا ہے ۔ جو اپ کو پسند نہیں اسے اپنے راستے سے ہٹاو اور گولی مار کر قتل کردو یہاں کی روایات بن چکی ہے ۔دوسرے لفظوں میں سیاست کی اڑ میں غنڑہ گردی اور شر پسند عناصر گھس اۓ ۔
یہاں عدم برداشت کی اکاس بیل اوگایا گیا۔یہاں پر نظریاتی سیاست کی بجاۓ۔شخصی سیاست کا رواج ڈالا گیا۔لوگ اپنے ملک سے اتنے مخلص نہیں ہوتے۔جتنے نام نہاد سیاسی لیڈر کے ہوتے ہیں۔اس کی خوشنودی کی خاطر عوام اور ملکی املاک کو نقصان پہچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر سرکاری اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہچانا۔اپنے اداروں کو بے توقیر کرناوغیرہ وغیرہ ۔ یہاں ایماندار سیاست دانوں۔کی بجاۓ۔ چور، ڈاکو ،کرپٹ ،بے ایمان ،سرمایہ دار ۔،وڑیرہ ۔بزنس مین کا قبضہ ہے ۔جن کو پاکستان کی ترقی کی نہیں بلکہ سیاست کی اڑ میں اپنی اور اپنی کئی نسلوں کی ترقی چاہیے ہوتی ہے۔ اور وہ ایک روپے کے لاکھ کیسے بنانے ہیں۔کے گھن چکروں میں ملکی خزانہ ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ اور اپنا خزانہ جمع کرنے کے لیےاپنے بنک اکاونٹ کو بھرتے جاتے ہیں ۔ اور وہ پسیہ اپنے ممالک میں لگانے اور لوگوں کو روزگار دینے کی بجاۓ۔دوسرے ممالک میں چھپایا جاتاہے۔اس طرح دوسرے ممالک امن امان اور مسائل پر قابو پانے کے لیے قانون پر سو فیصد عملدرامد کرواتے ہیں ۔قانون کی خلاف ورزی پر سخت جرمانے ہوتے ہیں ۔اور یہاں قانون تو بے شمار بن چکے ہیں ۔مگر فائل کور میں کسی مقدس کتاب کی طرح ڈھانپ کر بڑے احترام کے ساتھ الماریوں کی زینت بنے ہوۓ ہیں۔اور یہاں قانون پر عملدرامد کرنے کی بجاۓ قانون کو توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔
طاقت ور طبقہ قانون سے بالا تر ہوتا ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہاں کا قانون بنا ہی طاقت ور طبقہ کی حفاظت اور ان کے کالے کرتوتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے۔ اور نظرانہ چاۓ پانی وصول کیا جاتاہے۔ یہاں انصاف فراہم کرنے والے ادارے بے گنہاہ کو سزاۓ موت ۔اور قاتل کو باعزت بری کردیتے ہیں ۔ یہاں انصاف کا حصول اتنا سست اور نااہل ہے۔کہ کیسی پر دو بوتل شراب کو ثابت کرنے کے لیے اس کیس کا فیصلہ کرنے میں نو سال لگا دیتے ہیں ۔
ہم دعواہ ہوتے ہیں۔ہم سچے مسلمان ہیں ۔مگر صرف نام کے مسلمان۔کام تو ہم کافروں والے بھی نہیں کرتے۔وہ بھی ناپ تول میں بےایمانی نہیں کرتے۔ہم زندگی بچانے والی ادویات۔سے لے کر کھانے پینے کی اشیأ کے ساتھ ساتھ تمام چیزیں دو نمبر سے لیکر دس نمبر بناتے ہیں۔ اور سارادن منافقت کرنا جھوٹ بول کر بےایمانی کرکے اسے ایک نمبر بناکر کم لاگت اور راتوں رات امیر بننے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی لالچ میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ رشوت خوری حرام خوری ہماری رگ رگ میں بس چکی ہے جب تک ہم وہ نہ لیں ہمارا کام کرنے کو موڑ نہیں بنتا۔ سرکاری دفاتر میں بغیر کام کیے ہر ماہ پوری تنخواہ دیگرے مراعات وصول کرتے ہیں ۔اس لیے زاتی کاروبار کی بجاۓ سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں اکثر سرکاری نوکری کے چکر میں اور ایج بھی ہوجاتے ہیں ۔۔ غیر قانونی اسلحہ جات جعل سازی چوری جوا منشیات فروشی ،شراب نوشی،زنا،دنیاوی تعلیم ،سے لے کر دینی تعلیم کی درس گاہوں میں کوئی کم سن بچہ بچی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں۔
اور جناب ہم محب وطن پاکستانی بھی ہیں ۔مگر ہمیں اپنا کلچر ایک انکھ نہیں بھاتا۔ کیونکہ وہ پرانے زمانے کا ہے ۔ہمیں اپنی مادری زبان استعمال کرتے شرم اتی ہے۔ اس لیے ھم بولتے انگریزی ہیں ۔پہنتے۔انگریزوں کا لباس۔کھانا بھی تقریبا ان جیسا ہی کھاتے ہیں ۔گانے اور فیلمیں انڈیا کی پسند ہیں۔ خواب ہم لندن امریکہ فرانس یورپ کے دیکھتے ہیں ۔خریداری ہم باہر کی بنی اشیاء کی کرنا پسند کرتے ہیں۔مقامی طور پر ہم سندھی ہیں ۔ھم بلوچی ہم پٹھان ہیں۔ہم پنجابی ہیں۔مذہب مذہب کھلنے کی اڑ میں ہم مختلف فرقوں میں بٹے ہوۓ ہیں ۔ مسلمان ہوکر ایک دوسرے کو نازیبہ القاب اور الفاظ سے نوازتے ہیں ۔اور ایک دوسرے پر فتوہ لگاتے رہتے ہیں ۔سارا وقت لوگوں کی زاتی زندگیوں میں جھانکتے اور تنقید پر لگے رہتے ہیں ۔ہر چھوٹی بڑی پات پر ہزاروں لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ بغیر تحقیق کیے جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں ۔لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اگساتے ہیں۔ ہم خود کو اتنا بانٹ کے رکھا ہوا ہے ۔کہیں بھی ہم مکمل نہیں ہیں ۔
اتنی خوبیوں کے مالک ہیں کیا یہ تمام خوبیاں ان تمام ممالک اور ان کی عوام میں بھی پائی جاتی ہیں ۔فیصلہ اپ خود کریں اور پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کرکریں ۔ ہم تو خود لکیر کے فقیر ہیں ۔گنگا گۓ گنگا نہا لیے جمنا گۓ جمنا۔نہالیے ۔ ہم خود کیا ہیں خود کو نہیں پہچان پارہے۔ کبھی شعور کی کھڑکی کھول کر اس کی روشنی کو اپنی روح میں اتار کر اپنے اندر جھانکے اور اپ کے ارد گرد کیا ہورہا ہے اسے دیکھیں اور محسوس کریں اور صرف سچے پاکستانی بن کر سوچیے اور سب کچھ بھول جاۓ کہ ہم کون ہیں۔کیا ہیں ۔اور خود کو سچا پکا مسلمان اور صرف ایک پاکستانی قوم کیسے بن سکتے ہیں ۔ امید ہے جب اپ کسی ملک کی ترقی خوشحالی کا زکر کریں گے تو پہلے اپنی زات کا موازنہ ضرور کریں گے۔ کیسی کی مثالیں دینے کی بجاۓ اپ خود ایک مثال بنے کی کوشش کریں کہ دوسرے اپ کی مثال دے پاکستان زندہ باد