15 اگست یوم آزادی کے موقع پر اس اعلان کے بعد کہ مناسب وقت پر کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے گی آس بندھی تھی کہ مودی میں انسانیت کی کچھ رمق جاگی ہے ۔لیکن لگتا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنے کے گھمنڈ میں مودی پر فاشزم کا جادو ابھی اترا نہیں ۔ اگرچہ کشمیر میں گزشتہ ایک سال سے لاک ڈاون اور کشمیری قید خانہ میں بند ہیں، مگر مودی سرکار نے 5 اگست 2020ء کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، پرتشدد کارروائیوں اور غیر کشمیری ہندوں کو کشمیر کی شہریت دینے میں تیزی لائی ہے جو قابل تشویش ہے۔ ممکن ہے مودی یہ سوچ رہا ہو کی کشمیر میں ہندوں کی آبادی کاری رائے شماری میں مددگار رہے گی جسے بلآخر ہونا ہی ہے۔ اسی لئے صرف اگست 2020ء کے دوران 12 لاکھ بھارتی ہندوؤں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا گیا ۔جن میں 2 لاکھ 86ہزار وادی کشمیر اور 9 لاکھ 45 ہزار جموں میں،آباد ہوں گے۔۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ ڈومسائل 20 اضلاع میں جاری ہوئے ۔ مودی حکومت کی ہدایت ہے کہ آن لائن15روز کے اندر ڈومسائل جاری نہ کرنے پر متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔واضح رہے کہ 3 لاکھ ڈومسائل اس سے قبل جاری ہو چکے۔ مجموعی طور پر بھارت اب تک وصول ہونے والی 19 لاکھ درخواستوں میں سے 15 لاکھ غیر کشمیری ہندوں کو کشمیر کی شہریت دے چکا ۔ یہ مسلم اکثریتی ریاست کو غیر مسلم بنانے کی طرف تیزی سے پیش قدمی ہے ۔کشمیر میڈیا سروس نے انکشاف کیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے دو لاکھ سے زائد رشتہ دار ان کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے حصول کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنے واحد کفیل کی گم شدگی کے سبب معاشی مفلوک الحالی کا بھی شکار ہیں جب کے بھارتی فورسز نے کاروبار، اور گھروں کو تباہ کرنے کی پالیسی سے کشمیریوں کی معاشی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا اور معاشی و معاشرتی عدم استحکام پیدا کرنا نہ صرف مخالفین کو خاموش کرانے کے لئے کیا جا رہا ہے، بلکہ وسیع پیمانے پر غیر یقینی صورتحال اور خوف وہراس پیداکرنے کا ایک حربہ ہے۔ جبری گم شدگیوں گھروں اور کاروبار، کھیتوں کو چلانے یا نقصان پہنچانے کے ظالمانہ عمل کے باعث کشمیر میں اس وقت ہزاروں خواتین اور بچے ایسے ہیں جو ” نصف بیوائیں، نصف یتیم “کہلاتے ہیں اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں ۔ علاقے میں ہزاروں گم نام قبریں دریافت ہوئی ہیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ یہ قبریں دوران حراست لاپتہ کے گئے افراد کی ہوسکتی ہیں۔مقبوضہ علاقے میں رائج آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ، ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام ، اغواء کے بعد گم کرنے اور معاشی و معاشرتی طور پر تباہ کرنے کی کھلی چھٹی ہے اور ان قوانین کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروئی عمل میں نہیں لائی جاسکتی خواہ وہ جو بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی عمل کریں ۔ستم گر نوجونوں کو بلا وجہ گھروں سے اہل خانہ کی موجودگی میں گرفتار کرتے اور ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، شہید ہونے کی صورت میں اجتماعی قبروں میں گم کر دیتے ہیں یا لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے لائش جنگلوں یا دریاوں میں پھینک دی جاتی ہیں ۔چند روز قبل نثار احمد اور سمیر احمد ڈار کی لائشیں دریائے کشن کنگا سے ملی جو بالترتیب 2018 اور 2019 میں گرفتار کئے گئے تھے ۔ ان کے اہل خانہ نے اس وقت پولیس میں گم شدگی کی رپورٹ درج کراتے ہوئے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فورسز نے نوجوانوں کو لاپتہ کیا ہے اور انہیں ماورائے عدالت قتل کردیا جائے گا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نوجوانوں کو بھارتی فوج کے ٹارچر سیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہوگا، ہلاکت پر لاشیں دریا میں پھینک دی گئیں۔ کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ نثار احمد ترال ضلع کا رہائشی تھا اور دو سال قبل لاپتہ ہوگیا تھا جب کہ سمیر ڈار ضلع پلوامہ کا رہائشی تھا اور ایک سال قبل والدین نے اپنے بیٹے کی گم شدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی۔ بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی جانب سے گپکار ڈیکلریشن کے اجراء کے بعد بھارتی فورسز نے پرتشدد کارروائیوں میں تیزی لائی ہے جب کہ اس صورت حال پر آل پارٹیز حریت کانفرنس نے ابھی تک اپنا کوئی واضح لائے عمل نہیں دیا اور نہ ہی حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی ردعمل یا سیاسی و سفارتی حکمت عملی سامنے آئی ہے ۔ اگست کے دوران پر امن مظاہرین پرآنسو گیس ، گولیوں اور پیلٹ گنز سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال سے مجموعی طور پر 440 افراد کو شہید، زخمی اور گرفتار کر لیا گیا جن میں کم عمر بچے نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ فورسز نے گھر گھر چھاپوں کے دوران دو نوجوانوں اور ایک خاتون سمیت 20 کشمیریوں کو شہید کیا۔ اس ماہ کے دوران 92 نوجوان شدید زخمی کئے گئے۔ 328 عام شہریوں کو بلا کسی جرم کے جن میں بیشتر نوجوان سیاسی کارکن اور طالب علم تھے کو گرفتار کیا گیا۔ خدشہ ہے کہ حسب سابق ان پر ٹارچرسیل میں تشدد کر کے ہلاک کیا جائے گا ۔ ابھی تک ان کے ورثاء کو نہیں بتایا گیا کہ یہ کہاں ہیں ۔گرفتار ہونے والوں کی اکثریت کے خلاف کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں ۔ فوجیوں نے گزشتہ ماہ کم سے کم 5خواتین کی بے حرمتی کی، 8گھروں اور عمارتوں کو تباہ کیا یا شدید نقصان پہنچایا۔ صرف تین دنوں میں 10 بے گناہ کشمیری نوجوانوں کا ماورئے عدالت قتل کیا گیا۔ مودی کی فسطائی حکومت نے ماورائے عدالت قتل ،جبری نظربندیاں اور دوران حراست گم شدگیوں جو کہ مقبوضہ علاقے میں روز کا معمول بن چکا ہے کے ذریعے کشمیریوں سے زندہ رہنے سمیت تمام حقوق چھین لئے ہیں انسانی حقوق کی پامالیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے خواتین اور بچوں کو بھی بدترین ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیریوں کی جان ،عزت و وقار اور آزادی سب کچھ سفاک بھارتی فوجیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہی نہیں بلکہ الجزیرہ اور بی بی سی جیسے غیر جانبدار بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نامہ نگاروں کو سچ سامنے لانے پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اپنی رپورٹوں میں مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پربھارتی مظالم کو بے نقاب اور عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا سخت نوٹس لے ۔حتی کہ را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے مودی حکومت پر تنازعہ کشمیر کے سیاسی حل پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں عسکریت پسندی کے خاتمے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔کشمیر میں کوئی سیاسی سرگرمی یا مذاکراتی عمل جاری نہیں ہے اگر کسی قسم کی کوئی بات چیت ہو بھی رہی ہے تو یہ واضح اور سب کے سامنے ہونی چاہئیں۔ ایک عام کشمیری بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور دوستی چاہتا ہے۔ دلت کی بات درست ہے مگر کشمیریوں کی بھی کوئی سنے کہ وہ کیا چاتے ہیں صرف ظلم و ستم اغواء قتل سے یہ مسلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ضرورت ہے کہ بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے کی کوشش تیز کی جائے کہ مسئلہ کشمیر ایک قوم کی رائے شماری اور آزادی کا مسئلہ ہے جو اقوام عالم پر حل کرانا بطور قرض ہے مگر اس انداز میں سفارت کاری نہیں ہو رہی ۔ اگر یہی صورت حال رہی تو خطرہ ہے کہ کشمیری نوجوان مایوس نہ ہو جائیں