ملک کی سلامتی، دفاع اور مضبوطی ہر پاکستانی کی پہلی ترجیح ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا کوئی عقل مندی نہیں بلکہ افسوس ناک ہے
سیاستدانوں کو اپنے تمام مفادات ملک اور قوم کے تابع رکھنے چاہیے۔ عسکری و سیاسی قیادت کا ایک پیج پر ہونا ملک کی سلامتی اور ترقی کی ضمانت ہے۔ جو سیاستدان ملک میں انار کی پیدا کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہ قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔
فوج کا ادارہ ہماری پہچان، شناخت اور انتہائی منظم و مُعتبر ادارہ ہے اس کے خلاف زبان درازی اور لایعنی گفتگو قوم برداشت نہیں کر سکتی ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی محافظ فوج نہ صرف ہر مشکل وقت میں ملک و ملت کے ساتھ ساتھ کھڑی رہتی ہے بلکہ امن و امان کی بحالی، دھشت گردی کے خاتمے،سماوی آفات سیلاب و زلزلے اور انتظامی امور میں ہمیشہ سب سے آگے رہتی ہے۔ بد قسمتی سے ملک کے سیاست دانوں نے لوٹ مار، کرپشن، دولت کمانے اور ملک کو کمزور کرنے کے علاوہ کیا ہی کچھ نہیں ہے۔ وہ خود کو بچانے کے لئے اداروں، صوبوں کو آپس میں لڑانے اور نفرت پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ایسے لگتا ہے کہ بعض عناصر ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
قوم کو جاننا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو فوج اور حکومت کے خلاف اکسانے والے مولانا فضل الرحمن کس کا مہرہ بنے ہوئے ہیں جنکے خاندان اور جماعت نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی اور اس وقت بھی جمیعت علمائے ھند دہشت گرد مودی کے ساتھ کھڑی ہے۔ مولانا موصوف نے اقتدار کو اپنا مقصد بنانے کے لئے ہمیشہ بلیک میلنگ کا سہارہ لئے رکھا ہےاور مذہبی و مسلکی اختلافات کو ہوا دی ہے۔
سیاسی قائدین کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کے مفاد اور یکجہتی کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ مقام افسوس ہے کہ دو سال سے ہماری اپوزیشن کشمیر کے حوالے سے منہ پر تالے لگائے بیٹھی ہے۔ پوری دنیا کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری پر چیخ رہی ہے لیکن انہیں ابھی تک کوئی اثر ہی نہیں ہوا نہ وہ اثر قبول کرنے کو تیار ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان کا نام ہی مکمل نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان کا “ ک” کشمیر سے ہے۔ بھارت کی انتہا پسند بی جے پی اور ہندو توا پوری دنیا کے امن کا منہ چڑھا رہی ہیں اقوام متحدہ 75 سالوں سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے بھارتی افواج کشمیریوں کے قتل عام، مسلسل کرفیو کے نفاز ، ڈومیسائل کی منسوخی اور آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے لئے عالمی قوانین کا مزاق اڑا رہی ہیں لیکن صد افسوس کہ ہمارے بعض سیاستدان اس کی مذمت کرنے پر بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور بھارت کے گن گاتے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے مولانا فضل الرحمن 15 سال کشمیر کمیٹی کے چیر مین کے مزے لیتے رہے ان کی کارکردگی پر بات کی جائے تو وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ کشمیریوں کے حق میں ان کا کوئی بیان تک نہیں یورپ کے اکثریتی ممالک میں وہ داخل ہی نہیں ہو سکتے تھے نہ اردو عربی کے علاوہ کسی زبان پر عبور ہے لیکن آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے انہیں ہی یہ اہم ذمہ داری سونپے رکھی کیونکہ دونوں کے نزدیک کشمیر زیادہ اہم اور حساس معاملہ نہیں رہا۔ اور مولانا ہمیشہ اہم رہے ہیں لوگوں کا حافظہ بہت کمزور ہے کوئی نہیں جانتا کہ مولانا کے دادا محترم صوبیدار عبداللہ انکے والد محترم مفتی محمود اور انکی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے “عظیم کارنامے” اور انکی تاریخ اور جغرافیہ کیا ہے۔ اہل وطن کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہئے۔ مجھے قومی اداروں پر حیر ت ہے کہ مولانا سرعام جلسوں میں فوج اور سلامتی کے اداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہ ادارےخاموش بیٹھے ہیں حالانکہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے “ اجلے سیاسی کردار” سے کون واقف نہیں ہے۔