سکھ کسانوں نے بھارت سرکار کی بے جا نا انصافیوں اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے. بھارتی فوج کو سکھوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنے کے اشارہ کے بعد دہلی میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور سکھوں نے واضع طور پر کہا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر دہلی سے واپس نہیں جاہیں گے چاہے اس کے لئے انہیں اپنی جانیں ہی قربان کیوں نہ کرنی پڑیں۔
بھارت محض ہندوؤں کا نہیں، سکھوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارت میں 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کے بعد سکھوں پر پھر سے طاقت کے استعمال کی حماقت کا بھوت سوار ہے لیکن اس پر فوج کے استعمال کی صورت میں دونوں اطراف میں بہت بڑی تباہی کا اندیشہ ہے۔ دہلی کے اطراف میں ہزاروں کی تعداد میں فوجی گاڑیاں پہنچ چکی ہیں۔مزاکرات میں ناکامی کے بعد کسانوں کے خلاف آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سکھوں کے لیڈروں نے پاکستان سے مدد طلب کر لی ہے اور پاکستان ابھی تک خاموش ہے۔ ان حالات میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم بہت بڑی تباہی سامنے نظر آرہی ہے۔ کئی ممالک نے بھی سکھ کسانوں کے مطالبات کی حمائت کر رکھی ہے اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان کے مطالبات کے حق میں مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔
سکھ رہنماؤں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کے لئے آواز بلند کریں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ بھارت پہلے دن سے نہ اقوام متحدہ کی قرار دوں کو کوئی اہمیت دے رہا ہے نہ ہی اس پر عمل کرتا ہے وہ ہندو تواکی منفی سوچ اور دہشت گردی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے پورا جنوبی ایشیا خطرات کے گرداب میں ہے۔
سکھوں کی کسان ریلی سے خالصتان تحریک کو مہمیز مل رہئی ہے اور دنیا بھر میں آباد سکھ ہر سطح پر متحرک ہو چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگلا سال خالصتان کے قیام کا ہے۔ اگر بھارتی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو اسے سکھ قوم نانی کا دودھ یاد کرادےگی۔
بھارت سرکار کو فوجی آپشن سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ سکھوں نے برصغیر کی تقسیم کے دوران نہ صرف بھرپور کردار ادا کیا بلکہ مسلمانوں کے قتل عام میں بھی پیش پیش رہے۔ اس وقت بھی سکھ قوم سول و فوج کے اداروں میں بڑی تعداد میں موجود ہے بلکہ کچھ عرصے میں کئی سکھ آفیسر ان نے کشمیریوں کے قتل عام کےخلاف اور کسانوں کے مطالبات کے حق کی خاطر اپنے عہدوں سے استعفے دہئے ہیں۔ لگتا ہے مودی منطقی انجام کی طرف تیزی سے لپک رہا ہے اور اس کا انجام بھی عبرت ناک ھونے والا ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ ہر جابر اور ظالم کا انجام بالآخر وہی ہوتا ہے جو اس کی نسلوں کے لئے عبرت کا باعث ہوگا۔