ماحولیاتی آلودگی کے باعث جگنو اور تتلیاں معدومی کا شکارہوتی ہیں

0
526

پاکستان میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک کے دھوئیں، کیڑے مار ادویات کے استعمال، مصنوعی روشنیوں اور آرائشی پودوں کے رجحان میں اضافے کے سبب تتلیوں اور جگنوؤں کی بقا کو خطرہ ہے اور ان رومان پرور حشرات کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے، پنجاب میں مختلف اقسام کی تتلیوں کی افزائش تو کی جارہی ہیں تاہم جگنوؤں پرتحقیق کا کوئی مرکز موجود نہیں ہے۔

تتلی کی موجودگی کو تبدیلی کی علامت کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تتلی کو جوان محبت، جشن اور پاکیزہ روح یا فرشتے کی علامت کے طور پر بھی کہانیوں،کہاوتوں اور ناولوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تتلی کو زندگی کی خوبصورتی گردانا جاتا ہے جبکہ جگنو روشنی کا استعارہ ہے جو رات کے وقت اپنی روشنی کے ذریعے صاف ماحول کا اشارہ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ان حشرات کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے-

لاہورکے جلوب وٹینیکل گارڈن میں بنائے گائے بٹر فلائی ہاؤس کی نگران اینٹومالوجسٹ نازنین سحر کہتی ہیں ان حشرات کی معدومی کی بڑی وجہ فصلوں پر کیے جانے والے زہریلے اسپرے ہیں، جگنو اور تتلیاں کینچوے، مچھر اورایسے چھوٹے کیڑے کھاتی ہیں لیکن زہریلے اسپرے کی وجہ سے یہ حشرات ختم ہورہے ہیں۔ تاہم جن علاقوں میں زہریلے اسپرے نہیں کیے جاتے وہاں آج بھی تتلیاں رنگ اور جگنو روشنیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیم پہاڑی علاقوں، نہروں اور کھالوں کے قریب، جہاں لاروا مچھر کی بہتات ہوتی ہے، جگنو زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں-

لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی میں شعبہ حیاتیات کی سربراہ اورمحقق ڈاکٹر فرخندہ منظور کا کہنا ہے تیس چالیس سال پہلے کی نسبت اب تتلیوں اورجگنوؤں ایسے جانداروں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ان کے مطابق ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ مقامی پودے، جن پر تتلیاں پرورش پاتی تھیں، اب کاشت نہیں ہو رہے۔ نمائشی پودوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ زرعی ادویات کے باعث بھی ان کی پرورش نہیں ہو پاتی ہے۔ ڈاکٹرفرخندہ کا کہنا ہے ان حشرات کی افزائش بڑھانے کے لئے مقامی پودے مثلاً شیشم، کیکر کاشت کیے جائیں۔ زرعی اور کیڑے مار دواؤں کی بجائے حیاتیاتی ایجنٹس کا استعمال کیا جائے-

ماہرحیاتیات مواصلاتی سگنلز اور مصنوعی روشنیوں کو بھی جگنوؤں کی معدومی کی بڑی وجہ قراردیتے ہیں،مادہ جگنوزمین پررہتی ہے جبکہ نرجگنوفضامیں اڑتے اورروشنیاں بکھیرتے ہیں ، جگنواپنی مادہ سے اظہارمحبت اوراپنے ساتھیوں تک کسی بھی خطرے کا پیغام اپنے جسم سے خارج ہونیوالی روشنی کے ذریعے بھیجتے ہیں لیکن اب مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے وہ سگنلزنہیں بھیج پاتے ہیں-

پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں تتلیوں کی افزائش کے لئے بٹرفلائی ہاؤس موجود ہے ، جلوبوٹینیکل گارڈن میں جگنوؤں پرتحقیق اوران کی افزائش کے لئے سنٹربنانے کا منصوبہ تھا تاہم اس پرکام نہیں ہوسکا ہے، نازنین سحر کہتی ہیں تلیوں کی ہزاروں اقسام ہیں۔ پنجاب میں ابتک تتلیوں کی 58 اقسام سامنے آچکی ہیں اوران میں سے مقامی اور غیرمقامی 8 اقسام کی تتلیوں کی بٹرفلائی ہاؤس میں بریٖڈنگ کی جارہی ہے۔ تتلیوں کی عمر ایک ہفتے سے ایک سال تک طویل ہوتی ہے۔ تتلیوں کی ہر قسم کا اپنا عرصۂ حیات ہوتا ہے۔ سخت سردیوں میں یا تو یہ مر جاتی ہیں یا پھر سازگار علاقوں کی جانب ہجرت کر جاتی ہیں۔ جن علاقوں میں موسم معتدل ہوتا ہے، وہاں تتلیوں کی زیادہ اقسام افزائش پاتی ہیں۔ تتلیوں کی کچھ اقسام آب وہوا کی مناسبت سے اپنی ظاہری شکل تبدیل کر لیتی ہیں۔ جس کی بدولت تتلیاں موسمی تبدیلوں کا مقابلہ کر پاتی ہیں، بٹرفلائی ہاؤس میں جن تتلیوں کی بریڈنگ کی جاتی ہے ان میں منارچ، پلین ٹائیگر، لٹل ییلو، لیمن، اورنج سلفر، کامن مارمن، یلیو گلاسی ٹائیگر و دیگر اقسام شامل ہیں-

نازنین سحر نے بتایا کہ سردیوں میں کیبیج وائٹ نسل کی تتلیاں زیادہ پرورش پاتی ہیں، چنددیگراقسام بھی ہیں تاہم ان کی تعداد نہ ہونے کےبرابرہیں۔ ان تتلیوں کی افزائش کے لئے بٹر فلائی ہاؤس کے اندر مصنوعی طریقے سے درجہ حرارت 28 سے 33 ڈگری سینٹی گریڈ رکھا جاتا ہے۔ بہار کے موسم یعنی مارچ، اپریل اوراس کے بعد اگست سے نومبر کے وسط تک تتلیوں کی افزائش کا موسم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here