ریڈار لہروں سے عمارتوں کے اندر اور آرپار دیکھنے والا ’جاسوس‘ سیارچہ

0
601
ریڈار لہروں سے عمارتوں کے اندر اور آرپار دیکھنے والا ’جاسوس‘ سیارچہ

کیلیفورنیا: وہ دن واقعی دور نہیں کہ جب خلا میں گردش کرتے ہوئے جاسوس سیارچے نہ صرف زمین پر رکھی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہ آسانی دیکھ اور شناخت کرسکیں گے بلکہ وہ دیواروں کے آرپار اور عمارتوں کے اندر بھی دیکھ سکیں گے چاہے دن ہو، رات ہو یا پھر بادل ہی کیوں نہ چھائے ہوئے ہوں۔

امریکا کی ایک نجی خلائی کمپنی نے چند روز پہلے اپنے طاقتور ترین ریڈار سیارچے (ریڈار سیٹلائٹ) سے کھینچی ہوئی ایسی تصویریں جاری کی ہیں جو نہ صرف بہت تفصیلی ہیں بلکہ ان میں عمارتوں کے اندر اور آرپار تک دیکھا جاسکتا ہے۔

ان ریڈار تصاویر کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا ریزولیوشن 0.5 میٹر ہے؛ یعنی ایسی ہر تصویر کا ایک نقطہ (پکسل) زمین پر 50 سینٹی میٹر لمبی اور 50 سینٹی میٹر چوڑی جگہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو تجارتی سیارچوں میں اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں کی گئی تھی۔

توقع ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کو اور بھی بہتر بناتے ہوئے ریڈار سیارچوں کی تصاویر کا ریزولیوشن مزید بڑھایا جاسکے گا۔واضح رہے کہ ”کپیلا 2“ سیارچے میں وہی ”سنتھیٹک اپرچر ریڈار“ (ایس اے آر) ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو آج سے 46 سال پہلے ایجاد کی گئی تھی۔ البتہ نئے ریڈار سیارچے میں اسے کہیں زیادہ حساس، مفصل اور بہتر بنایا گیا ہے۔

کپیلا اسپیس کے بانی ’’پیام بن عزادہ‘‘ (Payam Banazadeh) کا کہنا ہے کہ فی الحال ’’کپیلا‘‘ کے دو ریڈار سیارچے خلا میں پہنچائے جاچکے ہیں جو زمین کی 75 فیصد سطح پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ اگلے سال یعنی 2021 میں، جب مزید 6 سیارچے خلا میں پہنچا کر یہ نیٹ ورک مکمل کرلیا جائے گا، تو پوری زمین پر کسی بھی جگہ کا مشاہدہ ریڈار لہروں سے کیا جاسکے گا۔

’’جب عام روشنی کی مدد سے زمین پر نظر رکھنے والے روایتی سیارچوں اور ہمارے سیارچوں سے حاصل شدہ (ریڈار) تصاویر ایک ساتھ ملیں گی تو خلا سے زمین کی منظر کشی اتنی زبردست ہوجائے گی جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھی،‘‘ پیام بن عزادہ نے بتایا۔

چند روز پہلے ان کی کمپنی نے سرکاری اور نجی اداروں کےلیے اپنی خدمات شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا جبکہ امریکا کے مختلف سرکاری ادارے اس سے پہلے ہی ان کی خدمات سے مستفید ہورہے ہیں۔

بظاہر یہ ایک نجی اور تجارتی منصوبہ ہے لیکن اس کے فوجی (عسکری) پہلو بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں: ’’کپیلا سٹیلائٹ سسٹم‘‘ کے ذریعے کنکریٹ کی موٹی دیواروں کے بھی آرپار دیکھا جاسکتا ہے۔ یعنی پنٹاگون انہی سیارچوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک کی فوجی اور خفیہ تنصیبات کے اندر بھی دیکھ سکے گا کہ وہاں کیا کچھ موجود ہے۔ اس طرح ’’خلائی جاسوسی‘‘ کے میدان میں ایک نیا دور شروع ہوجائے گا جب ’’سات پردوں میں چھپی چیزیں‘‘ بھی امریکا کی نظروں میں آجائیں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here