وہ جس کی برکت سے کوئی مسلمان زندگی بسر کرتا ہے اور جس رحمت اللعالمین ﷺ کے سہارے کوئی مسلمان اپنی عاقبت میں نجات کی توقع کرتا ہے، ہم نے صرف ایک ہفتہ کے لیے صوبائی سطح پر اس عظیم ہستی کی یاد منائی جس کے نام پر ہم نے ملک بنایا تھا اور درود کا ورد کرتے ہوئے ہم نے گویا اپنی عقیدت کا حق ادا کر دیا اور فارغ ہو گئے۔
آپ سب مسلمانوں کی طرح میں بھی سرکار دو جہاں کو یاد کرتا رہتا ہوں لیکن ایسی تقریبات سے یہ سوچ آتی ہے کہ کہیں ہم نے سالگرہ یا جیسے انگریزوں نے سال کے مختلف دنوں کو مختلف نام دے کر کسی نہ کسی سے منسوب کر رکھا ہے کہ یہ والد کا دن ہے، بچوں کا دن ہے، بہنوں بیٹیوں کے لیے دن مخصوص کر رکھے ہیں، کہیں اسی مغربی ثقافت کی پیروی میں اس ہستی کی یاد تو نہیں منائی گئی جس کے برابر انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا انسان پیدا نہیں ہوا اور جس کے نام کے ساتھ ہماری عزت ہے، پہچان ہے اور کوئی وقعت ہے۔
اپنی بداعمالیوں کے باوجود مغرب کی طاقتور قومیں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں پھر سے مہ کامل نہ بن جائے۔ ماضی میں دنیا کی کوئی سپر پاور چند سو برسوں سے زیادہ قائم نہ رہی لیکن مسلمانوں کی سپر پاور کوئی چودہ سو برس بعد ختم ہوئی۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں استنبول میں اس کا آفتاب غروب ہوا اور یہ سب بظاہر اپنوں کے ہاتھوں ہوا۔
ہفتہ شانِ رحمۃ اللعالمین میں پنجاب بھر میں تقریبات کا سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ نعت خوانی اور حسن قرات کے مقابلے منعقد کیے گئے۔ نعتیہ کلام کے نمونے شایع بھی کیے گئے اور محفلوں میں نعتیں پیش بھی کی گئیں۔ میں ذاتی طور پر چند پرانی نعتوں پر وجد میں آ جاتا ہوں۔ مجھے شاعر حضرت خورشید رضوی کا ایک نعتیہ شعر یاد آ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان محافل میں یہ نعت بھی پڑھی گئی ہو۔
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
وہی مرزا غالبؔ والی بے بسی کی بات کہ اﷲ کی ذات ہی اس کا مرتبہ جانتی ہے۔
غالبؔ ثنائے خواجہ ؑ بہ یزداں گزاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد ؑ است
یعنی غالبؔ ہم نے خواجہ کی مدح و ثنا اﷲ کے سپرد کر دی ہے کہ وہ ذات پاک ہے جو محمد ؑ کا مرتبہ جانتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ ہر لمحے حضور پاکﷺ کی یاد میں گم رہتا ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان سرکار دوجہاں ؑ کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کماحقہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا۔ میں ان کروڑوں خوش نصیبوں میں سے ہوں جنھوں نے روضئہ مبارک ؑ کی جالیوں کے سامنے لرزتے بدن اور ٹوٹے پھوٹے بیان کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں۔
خدا جانے مجھ پر کوئی ایسی ساعت طاری تھی یا میری بے کسی پر حضور پاک ؑ کو رحم آ گیا تھا کہ اس گناہ گار اعظم اور مطلبی آدمی کی حاضری بھی قبول ہوئی۔ وہ جو فرمان ہے کہ جو کوئی میرے پاس آتا ہے میں اسے دیکھتا ہوں تو خدا جانے مجھے حضور پاک ؑ نے کس حال میں دیکھا کہ مجھے اپنی رحمت سے سرشار کیا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر عرض کرتا ہوں کہ سید سرفراز شاہ صاحب نے مجھے اپنے ہاں طلب کیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی بظاہر ایک سیکولر دوست احمد بشیر کے ذریعے ہو رہی تھی۔
شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ایک پیغام دینے کے لیے بلایا ہے کہ تم نے کچھ پہلے روضہ اقدس ؑ پر جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آقا تمہیں دیکھ رہے ہیں تم نے جو معروضات پیش کی تھیں وہ قبول کر لی گئی ہیں۔ میں یہ سن کر ششدر رہ گیا، ہکا بکا ہو گیا، اپنی خوش نصیبی پرخود ہی رشک کرنے لگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنے امتی ہوں گے جن کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہو گا۔
محترم سرفراز شاہ صاحب کے اس روح پرور اور زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری کے بعد میں اندر سے کیا ہو گیا، یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کے بعد جب بھی شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ اب کوئی کسر باقی رہ گئی ہے، اپنی خوش نصیبی پر درود پڑھا کرو۔ اسی طرح میرے ایک صحافی ساتھی نے بھی مجھے ملاقات میں کہا کہ زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرو۔ نہ میں نے ان سے پوچھا نہ انھوں نے بتایا کہ صرف دوسری ہی ملاقات میں انھوں نے مجھے یہ نصیحت کیوں کی۔
ہم سب پاکستانی اپنے ملکی حالت کے متعلق پریشان رہتے ہیں اور زوال کی وجوہات تلاش کرتے رہتے ہیں۔ میرے ذاتی خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے خدا اور رسول پاک ؑ کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم نے ملک آپ کے لیے حاصل کیا ہے اور حتی الوسع کوشش کرینگے کہ آپکے راستے پر چلیں اور اس کو وہ ملک بنائیں جس کی طرف سے آقائے دو جہاں کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی مگر افسو س کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سیکولر دنیا کے پروردہ ہو گئے۔
دنیا میں ایسے ملکوں کی کمی نہیں ہے جو غیر مسلم ہیں لیکن ان میں اور ہمارے درمیان یہ فرق ہے کہ یہ وعدہ صرف ہم نے کیا تھا کہ ہم سیکولر نہیں مسلمان ہیں لیکن پھر چونکہ چنانچہ کے ذریعے اس وعدے کی خلاف ورزی بھی کی۔ کسی امریکا یا روس نے خدا اور رسول ؑ سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا، وہ ان پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وعدے کی بے وفائی کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ اس بے وفائی کے فعل اور عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے جیسے بری حکومتوں کی صورت میں ہمیں ملتا رہا ہے اور مل رہا ہے۔ بہر کیف ہم اگر اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں ہمارے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔