’’چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘

0
551

مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کر لیا ہے۔ قبطی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا بنجمن کے ساتھ اُن کا رویہ دیکھنا ہو تو یہ خط دیکھیں جو امیر کی طرف سے مصری صوبوں کے حکام کو لکھا گیا ہے۔

’’یہ اُس مقام کیلئے تحفظ اور سلامتی کا پروانہ ہے جہاں عیسائیوں کے اسقفِ اعظم بنجمن موجود ہوں، اُن پر خدا کی سلامتی ہو۔ اُن کی عزت و تکریم کی جائے اور گرجا گھروں کے معاملات معمول کے مطابق چلتے رہیں‘‘۔ بعدازاں جب فادر بنجمن امیر کے سامنے پیش ہوئے تو وہ انتہائی محبت سے پیش آیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا ’’اب تک جتنے علاقے فتح کئے ہیں، فادر بنجمن جیسا ولی ﷲ نہیں دیکھا‘‘۔

سن 661 اور یہ دمشق ہے۔ بھوکوں کیلئے کھانے اور بےگھروں کیلئے ٹھکانے ریاست کی ذمہ داری ہے۔ شہر میں پانی پہنچانے کیلئے فارس سے درآمد شدہ ’’ٹیکنالوجی‘‘ استعمال کی گئی ہے۔ آب پاشی، نہروں، نالیوں کا یہ نظام تھوڑی سی ترامیم کے ساتھ پوری اسلامی ریاست میں پھیلا دیا گیا ہے جو مستقبل میں ہسپانوی عیسائیوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا جدید دنیا تک پہنچا۔ امویوں نے عربی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے اور پوری دنیا پر دمشق کی اموی حکومت کے اثرات نمایاں اور عظیم الشان ہیں۔ یہاں سے کئی سنہرے ادوار کا سلسلہ آگے بڑھا۔ ایک مسلمان اندلس کی جانب گیا تو عظیم خیالات، ایجادات و تخلیقات کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔

یہ9ویں، 10ویں صدی کا وقت ہے۔ ’’دارالحکمت‘‘ کی عالیشان پیش رفت کے ساتھ ساتھ عباسیوں کا عظیم بغداد پوری دنیا پر گہرے علمی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ وہ المنصور اور ہارون الرشید کے خوابوں کی تعبیر بن چکا ہے۔ دو عظیم رصدگاہیں مکمل ہو چکی ہیں جہاں سے اجرامِ فلکی کا مشاہدہ و تحقیق کی جاتی ہے۔

المامون نے ماہرینِ فلکیات کو دعوتِ عام دی ہے کہ آسمانوں میں چھپے رازوں کا مشاہدہ کریں، ستاروں کی حقیقتوں کا کھوج لگائیں۔ المامون کی تائید، سرپرستی اور وژن کی وجہ سے علمِ فلکیات کو فروغ مل رہا ہے اور آج کوئی نہیں جانتا کہ صدیوں بعد اِسی وجہ سے چاند کے ایک آتش فشانی حصہ کو ’’المامون‘‘ کا نام دیا جائے گا۔

یہ 1192ہے۔ معروف صلیبی سپہ سالار جنگجو رچرڈ شیردل یروشلم پر حملہ کیلئے پلٹا ہے۔ بڑی جدوجہد کے بعد بھی یہ مہم ناکام رہی ہے کہ ایک ناقابلِ یقین واقعہ رونما ہوتا ہے کہ جس طرح ہارون الرشید اور شارلمین کے درمیان دوستی ہو گئی تھی۔ اُسی طرح صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیر دل میں بھی راہ و رسم بڑھتی ہے۔

اُن دونوں کی ملاقات بالمشافہ تو نہ ہوئی لیکن ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی اور احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ عکاکے محاصرہ کے وقت جب رچرڈ شیردل بیمار ہوا تو سلطان نے ذاتی طبیب کو علاج کیلئے بھیجا ہے اور اُس کے علاوہ رچرڈ کو تازہ پھل اور برف بھی بھجوائی ہے تاکہ رچرڈ کے بخار کا توڑ کیا جا سکے۔

دورانِ جنگ رچرڈ کا گھوڑا ہلاک ہوا اور پاپیادہ سپہ سالار کو مسلمان فوج کے گھیرائو کا سامنا ہوا تو ایک حکم کے تحت رچرڈ کیلئے نہ صرف راستہ چھوڑ دیا گیا بلکہ عزت و تکریم دی گئی۔ بعد میں سلطان نے اُسے دو بہترین تازہ دم گھوڑے تحفہ کے طور بھیجے ہیں۔

یہ عثمانی ترک ہیں۔ بیشتر دنیا جن کی طاقت کے سامنے لرزاں و ترساں ہے۔ عثمانی ترک عرب دنیا کو بھی ازسرنو کھڑا کر رہے ہیں۔ اُن کا دارالحکومت بلکہ دارالسلطنت استنبول ہے جو کبھی قسطنطنیہ کہلاتا تھا لیکن اُنہوں نے باز نطینی سلطنت کو دنیا کے نقشے سے ہی مٹا دیا۔ کوئی بھی شخص کبھی یہ بھولنے کی جرأت و حماقت ہرگز نہ کرےکہ عثمانی ترک صرف طاقت کی علامت ہیں۔

وہ اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں۔ اُنہوں نے ایک ایسی عالمی طاقت تشکیل دی ہے جس نے صدیوں دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ اِس ترک عثمانی سلطنت کی اصل پہچان اُس کے سرفروش ’’ہنی چری‘‘ ہی نہیں بلکہ اُن کی مذہبی رواداری، بین المذاہب معاشرتی زندگی اور فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ یہ 1492ہے اور قسطنطنیہ کی فتح کو صرف 40سال ہی گزرے ہیں۔ کچھ کشتیاں دور سے آتی دکھائی دے رہی ہیں جن کے استقبال کیلئے سلطانِ معظم کا وفد اپنے وزیراعظم کی قیادت میں اُن کا منتظر ہے۔ جب کشتی قریب آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کوئی غیرملکی امرا، سفرا، رئوسا نہیں کچھ ایسے لٹے پٹے لوگ ہیں جو اپنا وطن کھو چکے ہیں اور یہ سب کے سب یہودی ہیں جنہوں نے عظیم ترک سلطان بایزید ثانی کی جانب سے پناہ کی دعوت قبول کر لی ہے:

کہاں وہ سب

کہاں ہم سب

یادِ ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

کوئلے دہک رہے ہیں جن پر ننگے پائوں میرا ماتم جاری ہے، باقی پھر کبھی حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here