برما میں فرج پھر اقتدار پر قابض

0
237
nusrat javed urdu column

برما کی فوج نے پانچ سال کے “جمہوری” وقفے کے بعد ایک بار پھر اقتدار پرمکمل قبضہ کرلیا ہے۔”مکمل” لکھنا اس لئے ضروری تھا کہ 2015ء میں بھی اقتدار عوام کی منتخب کردہ قیادت کو منتقل نہیں ہوا تھا۔ جمہوری جدوجہد اور انسانی حقوق کے تحفظ کی طویل جدوجہد کی وجہ سے نوبل پرائز کی حق دار ٹھہرائی آنگ سان سوچی کو فقط “سینئر کونسلر” کا عہدہ دے کر “وزیر اعظم نما” بنانے کی کوشش ہوئی تھی۔ اس کی جماعت نے 1990ء کے دوران قومی اسمبلی کی 80فی صد سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ برمی فوج نے مگر انتخابی نتائج کا احترام کرنے سے انکار کردیا۔ سوچی کو گھر میں نظر بند کردیا اور “انقلابی کونسل” کے ذریعے کامل آمریت مسلط کردی۔ سوچی اس دوران دُنیا بھر میں جمہوری مزاحمت کی علامت بن کر اُبھری۔ عالمی مبصرین اکثر اس کا پاکستان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے تقابل کرتے۔ برما کے جرنیل تاہم اس سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔

رقبے کے اعتبار سے برما جنوب مشرقی ایشیاء کا سب سے بڑا ملک ہے اس کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ دُنیا بھر میں مقبول زمرد پتھر کا 75فی صد یہاں پیدا ہوتا ہے۔ تیل یہاں 1853ء میں دریافت ہوا تھا اسی وجہ سے انگریزوں کی مشہور کمپنی ہوا کرتی تھی جسے ہمارے بچپن میں “برما آئل” کہا جاتا تھا۔ بعدازاں یہ ہالینڈ کی ایک اور فرم کی شراکت دار ہوکر “برما شیل” کہلائی۔ ساگوان جیسی قیمتی لکڑی کے جنگلوں سے بھرے ہوئے اس ملک میں قدرتی گیس کے بے تحاشہ ذخائر بھی عالمی سرمایہ کاروں کے منتظر ہیں۔ برطانوی استعمار نے قدرتی وسائل پر تسلط کے لئے ہی اس ملک کو اپنا غلام بنایا تھا۔ اسے محکوم بناکر وہاں کے عوام کو خوش حالی میں کچھ حصہ دینے کے بجائے برطانوی ہند کے تاجروں کو دلکش ترغیبات کے ذریعے یہاں بسنے اور بازار کا اجارہ دار بنانے کی کوشش جاری رہی۔

قدرتی وسائل ہی تاہم برما کی حقیقی “بدنصیبی” نہیں ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے چین اور بھارت کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے برما ان دو ممالک کے لئے مشرقی ایشیاء کے ممالک تک پہنچنے کے راستے بھی بناتا ہے۔ دورِ حاضر میں امریکہ اور چین کے مابین بنیادی کش مکش ان سمندری راستوں پر اجارے کے لئے شدید تر ہورہی ہے جنہیں Asia-Pacificپکارنے کے بجائے ان دنوں امریکی Indo-Pacificکہنے پر اصرار کررہے ہیں۔ بھارت کو اس اصطلاح کی بدولت شہ دی جارہی ہے کہ وہ ان راستوں کا حتمی چودھری بنے۔”تہذیبی” اعتبار سے یہ اس کا “حق” بھی گردانا جارہا ہے کیونکہ لائوس، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا بدھ مت کے قدیم مراکز رہے ہیں۔ مسلم اکثریت والے انڈونیشیاء میں بالی کا جزیرہ بھی ہند واکثریت پرمشتمل ہے۔ بھارت کے ذریعے چین کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوششوں نے برما کو ایک بار پھر اپنا Strategicمقام یاد دلادیا ہے۔

برما کی فوج خوب جانتی ہے کہ امریکہ جیسے ممالک کی جانب سے “جمہوریت-جمہوریت” کا ورد محض ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔ اصل اہمیت تجارتی مفادات ہی کو میسر رہتی ہے۔ ان مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اوبامہ کے دور میں Indo-Pacificکی بساط بچھی تو امریکہ نے برما کے جرنیلوں سے بھی راہ رسم بڑھائی۔ ہیلری کلنٹن کے بعد اوبامہ نے بھی اس ملک کا دورہ کیا۔ جرنیلوں کو مائل کیا کہ وہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو اقتدار میں حصہ دار بنائے۔ 2015ء میں برما کی فوجی اشرافیہ اس کے لئے آمادہ ہوگئی۔ عام ا نتخابات میں سوچی کی جماعت -نیشنل ڈیموکریٹک لیگ-کو اکثریت مل گئی۔ برما کے آئین میں صدر کا عہدہ کلیدی ہوتا ہے۔ آنگ سان سوچی اس عہدے کے لئے مگر نااہل قرار پائی کیونکہ اس کا شوہر برطانوی ہے اور بچے بھی غیر ملکی شہرت کے حامل ہیں۔ اسے “سینئر کونسلر” بناکر “وزیر اعظم” بن جانے کی راہ دکھائی گئی۔ وہ دل وجان سے تیار ہوگئی۔

کئی برس تک “جمہوریت” کی بھرپور علامت قرار پائی سوچی کی اقتدار کی خاطر ایسی آمادگی حیران کن تھی۔ آمناََ وصدقناََ کہتے ہوئے وہ اس امر کو بھی تیار ہوگئی کہ داخلہ، دفاع اور خارجہ امور کے محکمے فوج ہی چلاتی رہے گی۔ یہ تقریباََ ویسا ہی “سمجھوتہ” تھا جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء کے انتخاب کے بعد ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف اسلم بیگ سے طے کیا تھا۔ اس کا انجام دیوار پر لکھا ہوا تھا۔ تاریخ کا المیہ مگر یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔

“جمہوریت” کے بنیادی تقاضوں کو بھلادینے کے علاوہ آنگ سان سوچی نے محض اقتدار میں ٹکے رہنے کی خاطر “انسانی حقوق” کے حوالے سے بھی اپنی منافقت کو حیران کن حد تک عیاں کردیا۔ اسے اقتدار میں شامل کرنے کے بعد برما کی فوج نے چنگیز خانی وحشت کے ساتھ روہنگیا کے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ ان میں سے لاکھوں بے گھر ہوکران دنوں بنگلہ دیش میں قائم مہاجرکیمپوں میں ذلت بھری زندگی گزاررہے ہیں۔ سوچی نے ان کی حمایت میں کبھی ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں اس کی بے اعتنائی “نوبل پرائز” کے کھوکھلے پن کو بھی بے نقاب کرگئی۔ سوچی یہ حقیقت یاد رکھنے میں قطعاََ ناکام رہی کہ برما کی فوج اس کے ساتھ “نرم” برتائو محض اس وجہ سے نہیں کرتی کیونکہ وہ عوام میں مقبول ہے۔ سوچی کی اصل قوت انسانی حقوق کے حوالے سے اس کا بین الاقوامی امیج تھا۔ روہنگیا مسلمانوں پر نازل ہوئی قیامت سے سفاکانہ لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اس نے اپنے ہی ہاتھوں اس امیج کا ستیاناس کردیا۔ بین الاقوامی پذیرائی سے محروم ہونے کے بعد وہ برما کی فوج کے لئے ایک آسان ٹارگٹ بن گئی۔

بین الاقوامی ساکھ کھودینے کے باوجود اس کی قیادت میں قائم جماعت نے گزشتہ برس کے نومبرمیں ہوئے عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کی ہے۔ وہاں کی “قاف لیگ” بدترین شکست سے دو چار ہوئی۔ اس نے دھاندلی کا شور برپا کردیا۔ برما کی فوج کو مگر شبہ تھا کہ نومبر2020ء کے انتخاب کی وجہ سے ملی دوتہائی اکثریت کو اب کی بار سوچی اپنے ملک کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لئے استعمال کرے گی۔ ایک بار پھر انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ فوج نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال تک “ہنگامی حالات” کا اعلان بھی کردیا ہے۔

حال ہی میں اقتدار سنبھالنے والی جوبائیڈن انتظامیہ کے لئے یکم فروری کے دن برما میں لگایا مارشل لاء ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت نمودار ہوا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا وعدہ تھا کہ وہ دُنیا کو ایک بار پھر یہ قائل کرنے کو ڈٹ جائے گی کہ “جمہوریت” چین کے متعارف کردہ نظام سے بہتر نظام ہے۔ دُنیا کے کسی بھی ملک میں فوجی آمریت یا بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرنے والی حکومتوں کو گوارہ نہیں کیا جائے گا۔

بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے عین گیارہ دن بعد مگر برما کی فوج نے امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔”وال سٹریٹ جرنیل”جیسے اخبار ابھی سے اپنے اداریوں میں اصرار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ “جمہوریت”کے ساتھ “رومانوی” رشتے پر زور دینے کے بجائے کھلے ذہن سے امریکہ کے “حقیقی” مفادات کو ذہن میں رکھا جائے۔ برما کی فوج کو یکم فروری کے اقدام کی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگایا گیا تو یہ ملک چین کے مزید قریب ہوجائے گا۔ آبادی کے اعتبارسے “دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” یعنی بھارت کے پالیسی ساز بھی مودی سرکار کو ایسے ہی “معقول” مشورے دے رہے ہیں۔ چین کی نقالی میں بھارت بھی برما کے راستے تھائی لینڈ تک پہنچانے والی شاہراہ کی تعمیر کے چکر میں ہے۔ آسام، میزورام اور ناگالینڈ جیسے “باغی” صوبوں میں موجود “حریت پسند” برما میں پناہ گزین ہوکر بھارت کے لئے کئی مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ گماں ہورہا ہے کہ بالآخر امریکہ اور بھارت کو برما کی فوج ہی سے اپنے اپنے “وسیع تر قومی مفاد”میں مک مکا کرنا ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here