شاید ہمیں غیرت آ جائے

0
231
javed chaudhry urdu columns

میں30سال سے مسلسل سفر کر رہا ہوں‘ دنیا کا تقریباً چپہ چپہ پھر لیا‘ صرف وہ ملک بچے ہیں جہاں سے میں تین دن میں واپس نہیں آ سکتا لیکن میں ٹیلی ویژن کے کیریئر کے بعد ان شاء اللہ وہاں بھی جاؤں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی تو پھر ابن بطوطہ اور مارکو پولو کے سفر ناموں کی طرز پر ایک طویل کتاب بھی لکھوں گا‘ یہ کتاب اردو پڑھنے والوں کے لیے ان شاء اللہ جدید دنیا کا کیٹلاگ ہو گی‘ میں تین سال سے آئی بیکس کے گروپس بھی باہرلے جا رہا ہوں‘ یہ بھی ایک انتہائی دل چسپ تجربہ ہے اور یہ تجربہ ہر بار بتاتا ہے ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔

ہم ابھی آرٹ‘ کلچر‘ تہذیب‘ شائستگی اور آرکی ٹیکچر کی اہمیت اور کھانے پینے اور بول چال کے آداب ہی سے واقف نہیں ہیں‘ ہم مہربانی کواپنا حق اور دوسروں کی محبت‘ خدمت اور احساس کو ان کی کم زوری سمجھتے ہیں اور دل کھول کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تاہم مجھے یہ خوشی ہے ہم سب مل کر ایک دوسرے کو سکھا رہے ہیں‘ ہمارے بیرونی اسٹاف کو ہم سے سب سے بڑا شکوہ وقت کی پابندی نہ کرنا‘ بدتمیزی سے مخاطب ہونا اور شکریہ ادا نہ کرنا ہے‘ ہمارے 30 گروپ جا چکے ہیں۔

اب تک ان میں کوئی ایک بھی ایسا گروپ نہیں تھا جس میں لوگوں نے وقت کی پابندی کی ہو‘ ہمارے آٹھ ہمیشہ نو بجے بجتے ہیں اور اس دوران کسی نہ کسی کا پرس‘ موبائل‘ کیمرہ یا جیکٹ ہوٹل کی لابی میں ضرور رہ جاتی ہے اور اس کے لیے بس کو دوبارہ ہوٹل واپس آنا پڑتا ہے‘ ہم گائیڈ‘ ڈرائیور اور ویٹر کو بھی ’’اوئے ادھر آ‘‘ کے اسٹائل میں ہاتھ کا اشارہ کر کے بلاتے ہیں اور یہ مہذب دنیا میں انتہائی واہیات حرکت ہے‘ ہمارے گروپ کے لوگ بھی شروع میں بس سے اترتے ہوئے اور ہوٹل میں جاتے ہوئے ڈرائیور اور گائیڈ کا شکریہ ادا نہیں کرتے تھے لیکن ہم لوگ اب بڑی حد تک ٹھیک ہو گئے ہیں۔

ہم سب ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں تاہم پوری کوشش کے باوجود ہم ابھی تک جہاز سے اترتے ہی سم کی تلاش‘ کرنسی کی تبدیلی کے دوران ’’تمہیں کتنے کا پڑا اور مجھے اتنے کا ملا‘‘ اور کھانے میں اگر ’’بریانی یا اچار بھی مل جاتا تو اچھا ہوتا‘‘ جیسے مسئلے حل نہیں کر سکے‘ ہم لوگ گم ہو جانے کے خوف پر بھی قابو نہیں پا سکے لیکن مجھے یقین ہے ہم جس طرح ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں‘ ہم ان شاء اللہ ان خامیوں پر بھی قابو پا لیں گے۔

میں ترکی کے رومانس میں مبتلا ہوں‘ میں1990 میں پہلی مرتبہ ترکی گیا تھا‘ میں طالب علم تھا اور بڑی مشکل سے رقم جمع کر کے استنبول پہنچا تھا‘ ترکی اس وقت معاشرتی‘ معاشی اور سماجی زوال کا شکار تھا‘ باسفورس گندا نالہ تھا‘ پورے شہر کا سیوریج اور کچرا اس میں گرتا تھا اور پورے ماحول میں بو‘ ایک باساند پیدا کرتا تھا‘ شراب اور چرس عام تھی‘ خواتین سروں پر اسکارف نہیں لے سکتی تھیں چناں چہ ہر طرف ننگے سر اور ننگی ٹانگیں نظر آتی تھیں‘ پورے شہر میں اذان کی آواز نہیں آتی تھی‘ لوگ مسافروں اور سیاحوں کو لوٹنا اپنا حق سمجھتے تھے۔

پورے شہر میں جیب تراش پھرتے رہتے تھے‘ آپ پولیس کو رقم دے کر پولیس وین بھی لے جا سکتے تھے اور ترکش لیرا دنیا کی کم زور ترین کرنسی تھی‘ ملین لیرا کی چائے ملتی تھی‘ میں اس کے بعد درجنوں مرتبہ ترکی گیا چناں چہ میں کہہ سکتا ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے اسے بدلتے اور ترقی کرتے دیکھا‘ ایک وقت ایسا تھا جب ترکی کے لوگ ہماری شرٹس‘ پتلون‘ جوتوں اور جیکٹس کو حیرت سے دیکھتے تھے اور آج ہم ان کے کپڑوں کو رشک اور حسرت سے دیکھتے ہیں‘ استنبول میں ساڑھے تین ہزار مسجدیں ہیں‘ ان سے اذان کی آواز آتی ہے اور فرش سے عرش تک پوری فضا کو معطر کر دیتی ہے۔

ترکش ایئر لائن دنیا کی ٹاپ ایئرلائنز میں شامل ہے اور یہ ملک دنیا کے10بڑے سیاحتی ملکوں میں شامل ہو چکا ہے‘ آپ ان کی پبلک ٹرانسپورٹ دیکھیں‘ سڑکوں اور گھروں کی تعمیر دیکھیں‘ ان کی زراعت‘ انڈسٹری‘تعلیم‘ لائف اسٹائل‘ پولیسنگ اور ٹیکنالوجی بھی دیکھیں آپ کو اس ملک کی ہر چیز حیران کر دے گی‘ یہ ملک کوالٹی آف لائف اور کوالٹی آف پراڈکٹس میں یورپ سے بہت آگے نکل چکا ہے‘ آپ ان کی پولیس کے جوانوں اور سسٹم ہی کو دیکھ لیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے اور رہ گئی بات صفائی کی تو یہ لوگ رات کو پورا شہر دھوتے ہیں۔

آپ کو کسی سڑک پر کاغذ یا کوئی ریپر نہیں ملتا‘ ان لوگوںنے صرف سیاحت سے 2019 میں 35ارب ڈالر کمائے تھے‘ استنبول شہر میں 400 فائیو اسٹار ہوٹلز ہیں‘ ترکی کی ایکسپورٹ 180بلین ڈالر ہیں اور یہ دنیا کی 13ویں بڑی معیشت ہے‘ لوگ طیب اردگان کی بے شمار پالیسیوں کو ناپسند کرتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود 15جولائی 2016 کو فوج نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی تو لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور یہ ساری تبدیلی 2000 سے 2010 کے درمیان آئی‘ میں 1987 میں نمل میں پڑھتا تھا‘ اس وقت ترک پروفیسر‘ بیوروکریٹس‘ ڈپلومیٹس اور پولیس اور فوج کے افسر انگریزی سیکھنے کے لیے نمل میں داخلہ لیتے تھے لیکن آج ترکی ہر شعبے میں ہم سے بہت بہت آگے ہے۔

ترکی کورونا کے دوران واحد ملک تھا جو کھلا رہا چناں چہ میں پچھلے سال چھ مرتبہ گروپ کے ساتھ ترکی گیا‘اگر اس ملک کے ہاتھ ہوتے تو میں اب تک انھیں چوم چکا ہوتا‘ میں سوموار کو تازہ تازہ چار دن گزار کر آیا ہوں‘ ہم استنبول بھی رہے‘ کونیا بھی اور کیپا ڈوشیا بھی‘ آپ یقین کریں ہمیں پورے ملک میں ایک بھی شخص ماسک اور کوئی دروازہ‘ کوئی باتھ روم اور کوئی عمارت سینی ٹائزر کی بوتل کے بغیر دکھائی نہیں دی‘ لوگ بھی چھ فٹ کے فاصلے پر تھے جب کہ پاکستان واپس آ کر ہمیں کوئی شخص ماسک میں دکھائی نہیں دیا۔

وزیراعظم اور صدر بھی ماسک کے بغیر پھرتے ہیں‘ ترک حکومت نے پوری آبادی کو ’’ہیلتھ کوڈ سسٹم‘‘ میں پرو دیا ہے‘ ہر شخص کو ایک کوڈ الاٹ کر دیا گیا ‘ یہ کوڈ موبائل فون میں ہوتا ہے‘ کوئی شخص اس کے بغیر کسی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتا‘ لوگ کوڈ کے بغیر کسی بس‘ وین‘ ٹرین‘ ایئرپورٹ‘ ریستوران‘ ہوٹل اور مال میں بھی نہیں جا سکتے‘ آپ اگر خدانخواستہ کورونا کے شکار ہیں تو پھر آپ کا ہیلتھ کوڈ فوراً پورے سسٹم کو مطلع کر دے گا اور آپ اس کے بعد گھر سے باہر نہیں نکل سکیں گے‘ ہم 35 لوگ تھے‘ ہم پر لازم تھا ہم اسلام آباد سے فلائی کرنے سے پہلے کورونا فری کا سر ٹیفکیٹ لیں۔

آپ یقین کریں ہمارے ایئرپورٹ پہنچنے سے پہلے ہمارے سرٹیفکیٹس ترکش ایئر لائن کے سسٹم میں موجود تھے‘ استنبول میں بھی ہم نیگیٹو رپورٹ کے بغیر امیگریشن سے آگے نہیں جا سکتے تھے‘ ہم ایئر پورٹ پر جوں ہی ماسک نیچے کرتے تھے تو پولیس کا اہلکار پہنچ جاتا تھا اور وہ ’’ماسک ماسک‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیتا تھا‘ ہم شہر میں کسی جگہ ماسک کے بغیر نہیں جا سکتے تھے حتیٰ کہ بس میں بھی ماسک لازم تھا‘ ہمارا ہیلتھ کوڈ بھی جاری ہوا اور ہم نے اس کے ساتھ سیاحتی مقامات کی سیر کی‘ ہمیں واپسی پر بھی کورونا ٹیسٹ کرانا پڑا‘ ہم اگر نہ کراتے تو ہمیں ایئرپورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملتی‘ ہفتہ اور اتوار دو دن ترکی میں لاک ڈاؤن ہوتا ہے‘ ان دو دنوں میں واقعی پورا ملک بند ہوتا ہے‘ مقامی لوگ گھر سے منہ بھی باہر نہیں نکال سکتے تھے۔

صرف سیاحوں اور طبی عملے کو گھومنے پھرنے کی اجازت تھی‘ ریستوران‘ کافی شاپس اور بارز سے صرف ٹیک وے ہو سکتا تھا‘ ہم خود بھی چھپ چھپ کر کھانا کھاتے رہے‘ میں اتوار کو چار گھنٹے تقسیم میں پھرتا رہا‘ وہاں ہوکا عالم تھا‘ عابد خان اورمیں نے لنچ بھی ریستوران سے ٹیک وے کیا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھایا‘ کافی بھی پھرتے پھرتے پی اور ہم استقلال اسٹریٹ پر چوڑا ہو کرپھرتے بھی رہے‘ اس وقت استقلال اسٹریٹ پر چلتے ہوئے میرے ذہن میں سوال ابھرا‘ یہ بھی تو ایک اسلامی ملک ہے‘ اگر یہ ترقی کر سکتا ہے اور اگرا سٹیٹ اس ملک میں اپنی رٹ اسٹیبلش کر سکتی ہے تو پھر ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ المیہ دیکھیے‘ ترکی میں ماسک کے بغیر کوئی شخص نظر نہیں آتا اور یہاں ہمارے ملک میں ڈاکٹر بھی ماسک کے بغیر اسپتالوں میں مٹرگشت کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم جون جولائی میں بھی لاک ڈاون نافذ نہیں کر سکے تھے‘ چناں چہ سوال یہ ہے اگر ترکی کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے‘ ہم اب تک ہیلتھ کوڈ بھی کیوں نہیں بنا سکے؟ چلیں ہم کل تک یہ بندوبست نہیں کر سکے لیکن ہم اب ویکسین لگوانے والوں کا کوڈ تو بنا سکتے ہیں‘ کم از کم یہ لوگ ہی اپنا ہیلتھ کوڈ دکھا کر ملک سے باہر جا سکیں‘ آخر ترکی میں کون سے سرخاب ہیں کہ یہ لوگ دس برسوں میں کچرے کے ڈھیر سے دنیا کی 13ویںمعیشت بن گئے اور ہم نے کون سا ایسا جرم کر دیا جس کی وجہ سے ہم آج ویکسین بھی خیرات اور امداد میں لے رہے ہیں‘ ہم ویکسین بھی خرید سکتے ہیں اور نہ بنا سکتے ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ خدا کے لیے ایک بار ضرور سوچیے گا شاید ہمیں اس سے ہی غیرت آ جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here